اِس خاک کو معاف کر دے میرے اللہ
اُس خاک میں جانے سے پہلے
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، اس نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا (بھی) بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہمارے (گناہوں) سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے میرے دونوں کند ھے پکڑ کے مجھ سے ارشادفرمایاکہ : دنیامیں ایسے رہ جیسے توپردیسی ہے، یا راہ چلتامسافر ۔
کہیں پرفرمایاگیاہے: اے پیغمبر! آپ ان لوگوں کوبتلا دیجئے کہ دنیا کاسر مایہ بہت ہی قلیل ہے، اورآخرت بہتر ہے پرہیز گاروں کے لیئے۔ (النسائ، ۴: ۷)
قرآن پاک میں فرمادیاگیاہے۔
ترجمہ! ” اللہ پاک ان پرعذاب نہیں کریگااورجب تک تم(اے محبوبﷺ) ان میں تشریف فرماہو”
ترجمہ:اوروہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اورگناہوں سے درگزرفرماتاہے اورجانتاہے جوکچھ تم کرتے ہو۔ (پارہ 25رکوع4)
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔
ترجمہ(اے محبوبﷺ)فرمادیجیے اے میرے وہ بندے جنہوں نے اپنی جانوں پرزیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامیدنہ ہوجانابیشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کومعاف فرمادے گابیشک وہ بخشنے والانہایت مہربان ہے ۔ (پارہ 24رکوع3)
ہم خاک سے بنائے گئے ہیں اور خاک ہی ہو جایئں گے- نہ جانے کب کس حالت میں دنیا سے جانا پڑ جائے اس لیے اس سفر آخرت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اہنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں-
نسائی ، طبرانی ، اور ابن ابی الدنیا نے عبادہ بن صامت سے روایت کی کہ رسول نے فرمایا کہ جو بھی جان روئے زمین پر مرتی ہے اس کے لئے اس کے رب کے پاس بھلائی ہے اور وہ واپس آنا نہیں چاہتی ، خواہ اس کو تمام دنیا اور ما فیھا ، دے دی جائے سوائے شہید کے ، کیوں کہ وہ بار بار آنے کی تمنا کرتا ہے تاکہ ثواب عظیم پائے ـ
’’ ربنا ظلمنا انفسنا والالم تغفرلنا وترحمنا لنکوننا من الخٰسرین ‘‘
اے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘