باپ کا احترام


والدین میں ایک ماں اور دوسرا باپ یہ دونوں ہی اپنی اولاد کی پرورش کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں ایسے میں ہمیں ان کی ناراضگی ازیت اور رنجش کا سبب نہیں بننا چاہیئے۔

ایک مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ” ان سے آگے نہ چلا کرو، ان سے پہلے نہ بیٹھا کرو،انہیں نام لیکر نہ بلاؤ،اور انہیں لعن تعن نہ کیا کرو۔۔

سبحان اللہ ان خوبصورت باتوں میں کسی بھی نیک اولاد کے لیے ہزاروں پہلو اور ڈھیروں کامیابیاں چھپی ہوئی ہیں۔ خصوصاً والد کے احسانات اولاد پر اس قدر ہوتے ہیں جنھیں ہم بعض لفظوں میں احسان سمجھتے ہیں مگر نا فرمان اولاد کی جانب سے اچھی پروش اور بہتر نگہداشت کے اس عمل کو والدین کا فرض کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے ،”یعنی میرے ماں باپ نے مجھے اچھا کھلایا پلایا اور پڑھایا لکھایا تو کوئی مجھ پر احسان نہیں کیا بلکہ یہ تو ان کا فرض تھا”۔ ان الفاظ کو زندگی میں جس کسی نے بھی استعمال کیا ہے اسے یہ ہی الفاظ اپنی ہی اولاد سے واپس ضرور سننے کو ملے ہونگے اور یہ ہی وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جب سینے میں یہ احساس اجاگر ہوتاہے کہ کاش میں نے اپنے والد محترم کی عزت ونفس کو نا اچھالا ہوتا اس کی محبتوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا ہوتا کاش کہ اس روز میں اپنے والد کا کہا مان لیتا کاش کہ اس روز میں یہ ضد نہ کرتا کاش میں بھی اس کے بڑھاپے کی لاٹھی بنتا جس طرح اس نے مجھے گود میں بٹھا کر کھلایا کاش کہ میں اپنے والد کے بڑھاپے کا سہارا بنتا کہ جس طرح اس نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا مجھے گرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔

اُس باپ کے سامنے اکڑ کر مت چلو
جس نے تمہیں چلنا سکھایا

باپ کا احترام

ایک بیٹا اپنے بوڑھے والد کو یتیم خانے میں چھوڑ کر واپس لوٹ رہا تھا کہ اچانک اسکو واپس جانے کا خیال آیا وہ واپس یتیم خانے پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا بوڑھا باپ یتیم خانے کے سربراہ کے ساتھ ایسے گھل مل کر ہنس بول رہاتھا جیسے اس کوبرسوں سے جانتا ہو۔جب اس کا والد یتیم خانے کے سربراہ سے ملاقات کے بعد وہاں سے اٹھا تو بیٹا یتیم خانے کے سر براہ کے پاس جا پہنچا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس کے باپ کو کب سے جانتا ہے ؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا گزشتہ پچس سالوں سے جب وہ ہمارے پاس ایک یتیم بچے کو گود لینے آئے تھے-

فرمان باری تعالیٰ ہے !

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکاہے !کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرنا۔اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجود گی میں ان میں سے ایک یا دونوں ہی بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا،بلکہ ان کے ساتھ ادب احترام سے بات چیت کرنا،اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازوپست رکھے رکھنااور دعا کرتے رہناکہ اے میرے پروردگار،ان پر ویسا ہی رحم کر جیساانہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے-

Us Baap kay Samnay Akar Kar Mat Chalo
Jis Nay Tumhain Chalna Sikhaaya


باپ کا احترام” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں