ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی


وہ لفظ ڈھونڈ رہا تھا لرزتے ہونٹوں سے
ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی

حضرت ابو نوفل سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک آدمی کو قتل کردیا ہے- تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟

اس نے کہا میرے والد زندہ ہیں- تحاسد العلماء ص ٤٣

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
جاؤ اور ان کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرو اور ان کیساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ

جب وہ چلا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر اس کی ماں زندہ ہوتی اور وہ اس کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرتا تو مجھے امید ہے کہ جہنم کی آگ اس کو کبھی بھی نہ چھوتی- برالوالدین: ص ٤٧

قرآن کریم میں ارشاد ہوا ’’اور تمھارے پروردگارکاارشاد ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو،اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان کواُف تک نہ کہنا اورنہ انہیں جھڑکنااور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنااور عجزونیازسے ان کے آگے جھکے رہواور ان کے حق میں دعا کروکہ اے پرودگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں(شفقت سے)پرورش کیا توبھی ان پررحمت فرما(سورۂ بنی اسرائیل)

ارشاد نبوی ہے کہ ’’وہ شخص ذلیل ہوا،ذلیل ہوا جس نے والدین کا بڑھاپا پایا اور دونوں( یا ان میں سے ایک جوبھی زندہ ہو)کی خدمت کرکے جنت میں نہ پہنچ جائے ۔اگر دیکھا جائے تو انسان اپنے والدین کے بے پناہ احسانات کابدلہ ہی نہیں چکاسکتا چاہے ساری زندگی ان کی خدمت میں گزار دے-
ایک حدیث کا مفہوم ہے ایک شخص نبی کریمﷺکے پاس آس آیا اور کہا اے اﷲ کے رسول ﷺ!میری ماں نہایت بوڑھی ہے ۔اور حرکت نہیں کر سکتی میں اسے یمن سے اپنی پیٹھ پر سوارکرکے لایا اور حج کروایا ۔اسے اپنی پیٹھ پر سوار کر کے بیت اﷲ کا طواف کرایا صفاو مروا کے درمیان سعی کی۔غرض سارے ارکان ادا کیے تو کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا ؟آپﷺنے فرمایا۔‘نہیں ۔‘اس شخص نے پوچھا اے اﷲ کے پیا ر ے حبیب ﷺوہ کیسے؟آپﷺنے فرمایااس لیے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لیے ساری مصیبتں صرف اس تمنا کے ساتھ جھیلیں کہ تم زندہ رہو۔اور تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا محض اس لیے کیا کے تم اس کے مرنے کی تمنا رکھتے –

رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کے سوال جو کہ اس نے والدین کے حقوق کے بارے میں پوچھاـ کے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’ھُمَا جَنَّتُکَ وَ نَارُکَ‘‘ والدین تیری جنّت و دوزخ ہیں، جنت ان کی رضامندی اور دوزخ ان کی ناراضگی میں ہے۔

حضرت نوح علیہ و علی نبینا صلو ٰۃ والسلام والدین کیلئے یوں دعا کرتے نظر آتے ہیں ’’ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَالِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیْ اَمِناً۔۔۔‘‘ خدایا مجھے، میرے ماں باپ کو اور ہر وہ جو میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہو، بخش دے اور خدایا مومن مردوں ، مومن عورتوں کی مغفرت فرما اور ظالموں کیلئے اپنے عذاب کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ فرما-

قرآن مجید میں چار جگہ پر اللہ تعالی نے اپنی عبادت و اطاعت کے فوراً بعد والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے، یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ والدین کا احترام،والدین کی اطاعت ، والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنےکی اسلام میں کتنی اہمیت ہے اور قرآن مجید کا والدین کیلئے اتنی تاکید کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی نافرمانی کتنا بڑا گناہ ہے۔

Woh Lafz Dhoond Rha Tha Larztay Honton Say
Zaeef Baap Nay Betay Say Baat Krni Thi


ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں