زمانہ جب بھی مشکل میں ڈال دیتا ہے
میرا اللہ ہزار رستے نکل دیتا ہے
قرآن مجید میں شرک کو سب سے بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے۔ انسان شرک کر کے اپنی ذات کے اوپر ہی ظلم کرتا ہے۔ قیامت کے دن مشرکین کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کبھی غلطی سے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کریں یعنی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکلنے دیں کہ جو شرک کے زمرے میں آتا ہو۔
ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ مزاروں پر حاضری دیتے ہیں اور وہ یہ مانتے ہیں کہ اگر انہوں نے فلاں فلاں مزار پر حاضری نہ دی تو ان کی دعا ہی قبول نہ ہوگی۔ یہ سراسر غلط عقیدہ ہے۔
انسان کی دعا اللہ تعالیٰ خود سنتا ہے اور وہ اسے قبول بھی فرماتا ہے، وہ انسان سے محبت کرتا ہے، وہ اس کی ہر خواہش پوری کرتا ہے اسی لیے دعا بھی براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہیے کیونکہ وہی ہے جو دعائیں قبول کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے، وہی عطا کرنے والا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جاکر نذریں پیش کرنے کی سخت ممانعت کی ہے۔
اکثر بے علم لوگ یہ تک کہتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ ہیں جن کے مزار پہ جو جاتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور وہی بزرگ مشکل کشا ہیں(نعوذ باللہ)۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ بھی غلط ہے۔
قران مجید میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ صرف اللہ ہی ہے جو ہمارے بگڑے ہوئے کاموں کو سنوارتا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ پھر ہم کیوں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دوسروں کو مشکل کشا مانتے ہیں۔ اللہ تعالی کیٰ ذات پاک ہے ان تمام باتوں سے کہ جو جاہل لوگ کرتے ہیں۔
تمام امت مسلمہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ سے جو مانگتے ہیں وہ ہمیں دیتا ہے۔ اپنی تمنا کو پورا کروانے کی خاطر ہمیں مزاروں پر حاضری دینے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ ان مزاروں پر جانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔
بے شک سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو مالک ہے ہم سب کا۔۔۔۔