نہ کچھ کہو ہمیں


ہلکی بارش میں ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ زرد سوکھے چرمر کرتے چند پتے ابھی تک اس کے بالوں، گود اور دوپٹے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹ دھیرے دھیرے گنگنانے لگے، وہ گیت جو کبھی موسلادھار بارش میں بھیگتے ہوئے، ان راستوں پر آگے آگے چلتے ہوئے وہ سنایا کرتا تھا۔

نہ کچھ کہو ہمیں
ہم اس راہ کے مسافر ہیں
ہم عشق میں پاگل ہیں
نہ کچھ کہو ہمیں
ہم لیلیٰ ہیں، ہم مجنوں ہیں

شاید لیلیٰ نے قیس سے اتنی محبت نہیں کی ہو گی جتنی اس نے اپنے قیس سے کی تھی یا شاید اس کے قیس نے اس سے کی تھی یا شاید دونوں نے…..

دل یہ معمہ کہاں حل کر پارہا تھا

زرد

Na Kuch Kaho Hmain


اپنا تبصرہ بھیجیں