پروفیسر نرید فاطمہ
26 دسمبر 2018 ۔۔۔ لاہور ۔۔پاکستان
‘ ماں تے آخر ماں ہوندی اے ”
چند ماہ پہلے ویٹرنری ڈاکٹر بننے والے میرے بیٹے حسین کے تجزیاتی مطالعے کی غرض سے خرگوشوں کی ایک جوڑی ہماری مہمان بنی ۔۔۔ گزشتہ ہفتے میں نے جب ان کو دڑبے سے باہر نکالا تو مادہ خرگوش میں خلاف معمول ایک بے چینی سی دیکھی۔۔۔ وہ پالک اور گاجریں کھاتے کھاتے اچانک اپنے بال نوچنے لگتی۔۔ پھر دڑبے میں چلی جاتی ۔۔۔پھر باہر آتی ۔۔تھوڑا بہت کھاتی اور بار بار اپنے بال نوچتی۔۔۔ میں سمجھی کہ اسے الرجی ہو رہی ہے اور وہ کھجلی کی وجہ سے اپنے بال نوچ رہی ہے۔۔
اسی اثنا میں میرا بیٹا حسین یونیورسٹی سے لوٹا تو میں نے اسے سارا ماجرا کہہ سنایا اور تاکید کی کہ اپنے اساتذہ اور سینئر ڈاکٹرز سے مشورہ کر کے اس بیچاری کا فوری دوا دارو کرو ۔۔ مجھ سے اس بے زبان کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی ۔۔ جب وہ اسے دیکھنے باہر صحن میں گیا تو خوشی سے دوڑتا ہوا واپس آیا اور کہنے لگا : امی امی ! مادہ خرگوش نے بچے دیے ہیں۔۔سب آ کے دیکھیں ۔۔ ہم سب نئے مہمانوں کے استقبال کے لئے دڑبے کی طرف لپکے ۔۔۔ وہاں جا کر جو منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔ میں اسے لفظوں میں بیان کرنے سے یکسر قاصر ہوں، ہوسکے تو میری تحریر میں چھپے احساس کو اپنے محسوسات سے کشید کر لیجیے ۔۔۔
میں نے دیکھا کہ مادہ خرگوش جو اپنے بال نوچ نوچ کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد دڑبے میں جاتی تھی اس ماں نے سخت سردی کے موسم میں اپنے بدن سے بال اتار اتار کر۔۔۔ مٹی کے اوپر اپنے سونے کے بستر پر اپنے بالوں کا نرم ، گرم بچھونا بنا رکھا ہے اور اپنے نوزائیدہ بچوں کو اپنے نوچے ہوئے بالوں کی فر میں لپیٹ دیا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ ابھی اس کے بچوں کے جسم پہ بال نہیں اگے تھے ۔۔۔ سردی کے موسم میں انھیں ٹھنڈ لگنے کے اندیشے نے ماں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے بدن کے بال نوچ نوچ کر اپنے بچوں کو گرمائش پہنچانے کا بندوبست کرے۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی ، لفظ گلے میں پھنس گئے ،احساس کی حدت لئے صرف آنسو رواں تھے ، کیونکہ ایک ماں ہونے کے ناطے میں اس بے زبان کی مامتا کی تڑپ سے واقف ہو چکی تھی، جان چکی تھی کہ اسے الرجی نے نہیں ،مامتا کےانمول فدائی جذبے نے اپنے بدن کو بے بال کر کے اپنے بچوں کی خاطر خود کو سخت سردی کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
تب سے اب تک میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کہنے کو یہ ایک جانور ہے ۔۔۔ بے زبان جانور ۔۔۔ جسے ہم نادان ، بے عقل ، بے شعور ، نا سمجھ ، ناعاقبت اندیش کہتے ہیں ۔۔۔۔
مگر اس لمحے مجھے یوں لگا کہ یہ جانور نہیں ۔۔
“صرف ماں ہے” ۔۔۔ مامتا کے احساس سے سرشار ماں ۔۔۔ اپنے بچوں کی خاطر سب کچھ سہہ جانے اور قربان کر دینے والی ماں۔۔۔ اپنے بچوں کی خاطر خود کو نثار کر دینے والی ماں۔۔۔۔۔۔ صرف ایک ماں…!!!!!
یہ تحریر لکھتے ہوئے ، میری آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے ہیں ، کئی گستاخ بے مروت اور بےفیض اولادوں کی تڑپتی بلکتی ماؤں کو یاد کر کے ۔۔۔ کئی زخم خوردہ ماؤں کے ظاہری و باطنی زخم یاد کر کے۔۔ کئی مجبور لاچار ماؤں کی اولادوں کی دست درازیاں اور ان کے نیل زدہ بدن یاد کر کے، تڑاخ پڑاخ کرتی جوان اولادوں کی شعلہ بار نگاہوں اور الفاظ کے زہر آلود نشتر یاد کر کے۔۔ اولڈ ہاؤس کے گیٹ پر بلکتی ، اپنی اولاد کی چمکتی کار کی طرف واپس لپکتی ماؤں کو یاد کر کے ۔۔۔۔۔۔
ہمت ہوئی تو کبھی اس عنوان کو مکمل کروں گی ۔۔۔
آنسو پونچھتے ہوئے میں اپنے بیٹے سے صرف ایک ہی جملہ کہہ پائی
کہ بیٹا اپنی روشن خیال، آزاد منش اور سولائزڈ جنریشن کو یہ تصویر ضرور دکھانا اور یہ بتانا کہ ۔۔۔۔۔
”ماں تے آخر ماں ہوندی اے ”