بچوں کو کسی جن، بھوت، بابا سے مت ڈرائیں۔ اگر آپ ان کو یہ بھی بتائیں کہ واش روم میں جن ہیں تو زیادہ زور اس بات پر ہو کہ دعا پڑھو گے تو اللہ حفاظت کرے گا۔
یہ دعا پڑھو گے تو فرشتوں کی آپ کے ساتھ ڈیوٹی لگ جائے گی، حفاظت کرنے کی۔
بچوں کو گلے لگائیں، گود میں بٹھائیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنے نواسوں اور دوسرے بچوں کو گود میں بٹھاتے تھے۔
بچوں کے ساتھ برابر کا سلوک کریں۔
بچوں کی بچپن کی حرکتیں خوشی سے برداشت کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ پر ایک شیر خوار بچے نے پیشاب کیا جس کو انہوں نے گود میں بٹھایا ہوا تھا، تو وہ ناراض نہیں ہوئے، بلکہ کپڑے صاف کرلئے۔
آپ بھی اپنی نمازوں اور پاکی کا غصہ بچے پر نہ نکالیں۔
بچوں کو سلام کیجئے۔ بلکہ سلام میں پہل کیجئے۔ باقی سب کو سلام کرلینا اور بچوں کو اگنور کر دینا ان کی بےعزتی اور تحقیر ہے۔
بچوں کو تحفے دیجئے، کھانے کی چیز سب سے پہلے بچے سے اور بچوں میں بھی سب سے چھوٹے بچے سے شروع کریں۔
بچوں کے ساتھ کھیلیں، ان کو کھلائیں، ان کو ہنسائیں۔ رسول اللہ ﷺ بھی ایسا کرتے تھے، مثلاً پانی کے ساتھ کھیلتے تھے۔
بچوں کے پیار کے نام رکھیں۔ بیٹا، بیٹی رانی، بیٹا جان کہیں۔ یہ روز کا پیار کا پیغام ہے جو آپ بچوں کو دیتے ہیں۔
آپ بیٹا، بیٹے کہنے سے اپنے کلچر کی وجہ سے مت شرمائیں، آپ کی جھجک بچوں کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔
بچوں کو جانوروں کے ناموں سے مت بلائیں۔ یہ ہماری سوسائٹی میں بہت نارمل ہو چکا ہے حتی کہ ہمیں ذرا بھی برا نہیں لگتا۔
یاد رکھیں ایک جاہل ماں تو ایسا کر سکتی ہیں لیکن تہذیب، تمیز والی ماں اس کو برا ہی سمجھے گی۔
بچوں کو ڈکٹیٹ اور کنٹرول نہ کریں۔ بلکہ ان کی پرورش اور تربیت کریں یعنی بچے سے جو کروانا ہے اس کو خود کرکے دکھائیں۔ نماز پڑھ کے، اچھی باتیں کرکے، صاف ستھرا رہ کر اس کو سکھائیں۔
بچے کو کنٹرول نہ کیجئے۔ یہ عادت بچے یا بچی کی شادی کے بات بھی ہم نہیں چھوڑتے اور ہر بات میں مداخلت کرنا نہیں چھوڑتے بلکہ احسن انداز میں ان کو مشورہ دے دیں اور حتمی فیصلہ ان پر چھوڑ دیں۔
? BACHON KO KESEY EMOTIONAL MAZBOOT KARAIN