با ہمت لوگ کبھی ہارا نہیں کرتے


باہمت لوگ

ایک فرضی قصہ کہیں سے سنا تھا کہ ایک دن ایک کسان اللہ سے دعا کر رہا تھا۔ کہ اے اللہ میری فصل پر موزوں وقت پے بارش ، اور دھوپ نہیں ہوتی ، جس سے میری فصل کم پیداور دیتی ہے۔ اگر مجھے یہ بارش برسانے اور دوسرے کاموں کا اختیار مل جائے تو میں موزوں وقت پر موزوں موسم اور درجہ حرارت فراہم کر کے اچھی فصل حاصل کرونگا ۔ اور خوشحال ہو جاونگا۔ اللہ نے اسے اختیار دیا اور وہ شروع ہوگیا ۔ موزوں وقت پر موزوں چیز فراہم کرتا رہا ۔ اور فصل تیار ہوگی کیونکہ وقت پر پانی اور موزوں درجہ حرارت فراہم کی گئی تھی۔ فصل بہت اچھی ہوئی تھی۔ ہر طرف کاشتکار کے عقل مندی کے قصے اور کہانیاں سنائی جا رہی تھی۔ اور سب لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا کہ وہ خود دیکھے کہ کتنی اچھی فصل اگائی ہے۔ لیکن جب مشین سٹارٹ ہوئی تو صرف بوسا ہی بوسا نکل رہا تھا، آناج کا ایک دانہ بھی اس میں نہیں تھا۔۔۔۔

جناب قاسم علی شاہ صاحب فرماتے ہے کہ بچپن میں میں ایک مرغی کے انڈے کے قریب بیھٹا تھا۔ جس سے چوزہ نکلنے کا ناکام کوشش کر رہا تھا۔ میں نے انڈہ توڑا اور بچے کو نکلا ۔ میرے استاد صاحب مجھے ایسا کرنے سے منع کرتے رہے کہ اسے اپنے حال پر چھوڑو لیکن میں نہیں مانا۔ اور انڈہ توڑ کے اسے باہر نکلا ۔ لیکن حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ چار ، پانچ دن بعد مر گیا۔ اور میرے استاد نے اس کا خون میرے سر ڈال دیا۔ کہ تم نے اسے مار دیا۔

ایک ملک میں ایک بادشاہ نے اصل ہیرے اور نقلی ہیرے مکس کیے اور اعلان کیا کہ جو اس کو الگ الگ کریگا ۔ اسے انعام اور جو اس میں ناکام ہوگا اس کا سر قلم کیا جائے گا۔ بہت سے اہل علم نے سر تن سے جدا کر دیئے ۔ لیکن کسی کو کامیابی نہ ملی۔ ایک دن ایک اندھا دربار میں داخل ہوا اور اس نے یہ چیلنج قبول کر دیا۔ بادشاہ نے اسے بہت سمجھایا کہ جب آنکھوں والے نہ کرسکے تو تم کیسے کروگے؟ لیکن وہ نہ مانا اور ہیروں کی تھیلی لے کے محل سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد آیا اور الگ الگ کی ہوئی ہیرے بادشاہ کے سامنے پیش کی ۔ اور اہل علم نے تصدیق کی کہ اندھے نے درست طور پر جدا کی ہیں ۔ بادشاہ نے جب اندھے سے احوال پوچھا تو اندھے نے کہا یہ تو بہت آسان کام تھا۔ میں نے ہیرے دھوپ میں رکھے ۔ جو اصلی تھے وہ گرمی برداشت کرتے رہے۔ اور ٹھنڈے رہے جبکہ جو نقلی تھے وہ دھوپ کی گرمی برداشت نہ کرکے گرم ہوگئے۔اور میں نے ان کو الگ الگ کر دیا۔۔۔۔۔

تینوں کہانیوں میں ہمارے لئے ایک سبق ہے ۔ فصل کو سب کچھ موزوں ملا تھا لیکن دانے کے لیے کچھ تکلفیں، کچھ خشک سالی وغیرہ بھی ضروری ہوتی ہے جو اسے نہ ملی ۔ باہر کے دنیا میں رہنے کے لیے انڈے کے اندر کچھ مشقیں کچھ تکالیف برداشت کرنے تھے ۔ جس کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا مشکل تھا لیکن جو ہی قاسم علی شاہ صاحب نے انڈے سے نکلنے کے لیے چوزے کی مدد کی وہ مدد پسند اور آسانی پسند ہوگیا ۔ اور اس سخت اور مقابلے والی دنیا میں ان کے لئے زندگی گزرنا اور زندہ رہنا مشکل ہوگیا ۔ بالکل اس طرح اج جو مقابلے کے سختیوں سے ڈر گیا ۔ وہ ناکام اور نامراد رہا۔ اور اخری کہانی میں بھی مقصود دھوپ کی گرمی سہنا ہے۔۔۔۔۔

مطلب اور مقصد ان کہانیوں کو بیان کرنے کا یہ تھا۔ کہ ہر وہ انسان جو غربت ، ناکامی، لوگوں کے مزاق، محفلوں سے نکالنے ،اور تزلیل کی گرمیوں کو برداشت کرتا ہے۔ اللہ ان کو ہیرا اور اصل ہیرا بناتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے انسان، ادارے وغیرہ ہے سب نے اس کے لیے کچھ نہ کچھ برداشت کیا ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ قیمت لازمی ادا کی ہوتی ہیں ۔ وہ ایک شاعر کا ایک شعر ہے ۔۔۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑے مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

لیکن جیسے ہی وقت گزر رہا ہے ہمارے جوان اور بچے اسانی پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ تھوڑی سی ناکامی تھوڑی سی سختی اور تکلیف ان کو اپنے مقصد سے ہٹا دیتی ہے ۔ مایوس ہو جاتے ہیں۔ بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں ۔۔۔

ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ اپنے مقصد اور خواب کو پانے کے لیے راستے میں انے والے ہر مشکل اور ناممکن رکاوٹ کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اور اس کو اپنی ناکامی اور بد قسمتی کا جواز بنانے سے اچھا ہے۔ انسان اسے اپنی طاقت اور اپنی قوت بنائے ۔۔۔۔۔ان کی ڈر سے اپنے مقصد اور خواب سے دستبردار نہ ہو۔۔۔۔

وماعلینہ الاالبغ
تحریر ارشد حسین

DHOOP KI GARMI


اپنا تبصرہ بھیجیں