فرہاد کی آس ہو چلا ہوں
میں سخت اُداس ہو چلا ہوں
ہجرت پہ گئے ہوں جس کے باسی
اُس صحن کی گھاس ہو چلا ہوں
جس کی نہ اُٹھے کبھی عمارت
اُس گھر کی اساس ہو چلا ہوں
شاخوں سے جھڑے ہوئے گُلوں کی
بکھری ہوئی باس ہو چلا ہوں
ٹانکے کوئی مجھ کو بادلوں میں
میں دشت کی پیاس ہو چلا ہوں
ماجدؔ مجھے جانے کیا ہوا ہے
برحق تھا قیاس ہو چلا ہوں
ماجد صدیقی