چھوٹی چھوٹی خوشیاں


ماں

میرے آفس سے آج اس ٹرینی کو پہلی تنخواہ ملی تو میں نے پوچھا ان پیسوں کا کیا کرو گے؟
وہ بولا دوستوں کے ساتھ انجوائے کروں گا، ‎میں نے اس کاکندھا تھپتھپایا اور کہا نہیں بیٹے یہ نہ کرنا، ‎وہ سوالیہ اندازسے میری طرف دیکھنے لگا

‎میں نے باہر کھڑکی سے دور خلا میں دیکھنا شروع کر دیا ایک پرانی یاد میں کھو گیااور بولا۔۔۔!

‎بیٹے آج سے تیس برس پہلے مجھے بھی پہلی بار تین سو روپے تنخواہ نما وظیفہ ملا تھا میں گھر آیا اور امی کو بتایا تووہ بے نیازی سے بولیں “تم رکھ لو کام آئیں گے “اور میں نے معصومیت سے وہ روپےجیب میں ڈال لئے-

‎ ابو دور سے یہ سب دیکھ رہے تھے
‎مجھے محسوس ہوا امی کچھ چپ سی ہو گئی ہیں رات تک میں اس کی وجہ نہیں سمجھ سکا نہ میں نے توجہ دی رات والد محترم نے شفقت سے پاس بٹھا کر کہا

‎“بیٹےجب بڑے ہو جاتے ہیں تو ماؤوں کے دل بھی بڑے اور مضبوط ہو جاتے ہیں انہیں ان پر بڑا فخر ہوتا ہے اور وہ برسوں اس دن کا انتظار کرتی ہیں کہ ان کا بیٹا کما کر لائے گا اور اپنی کمائی ان کے ہاتھ پر رکھ دے گا وہ اس تصور سے ہی فخر کے ساتھ جھومنے لگتی ہیں “

‎میں توجہ سے ابو کی بات سن رہا تھا
‎وہ بولے بیٹے پیسے پہلے بھی تمہاری ضروریات کے لئے ماں ہی تمہیں دیتی ہے آئندہ بھی وہی دے گی لیکن اگر تم یہ تھوڑے سے روپے اس کے ہاتھ میں دے دو گےتو اس کا دل خوشی سے بھر جائے گا اس کا مان رہ جائے گا۔

‎میں اسی وقت اٹھا اور جا کر ماں کے پیروں کی طرف بیٹھ گیا تین سو روپے ان کے سامنے رکھے اور کہا ماں یہ تو آپ کے لئے ہی کمائے ہیں ناں آپ ہی کے تو ہیں-

‎پھر وہی ہوا، ‎ماں نے مجھے لپٹا لیا ماتھا چوما ان پیسوں کو چوما آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیر تک اللہ کا شکر ادا کیا اپنے دوپٹے سے آنسو صاف کئے اور مجھے یوں لگا میں نے قارون کا خزانہ ان کے قدموں میں رکھ دیا ہو۔۔۔

‎میں نے اس ٹرینی نوجوان سےکہا بیٹے یہ پیسے جا کر ماں کے ہاتھ پر رکھنا اور یاد رکھنا ہم شاید اپنوں کے لئے بڑی بڑی خوشیاں نہ خرید سکتے ہوں مگر چھوٹی چھوٹی خوشیاں دےہی سکتے ہیں ناں۔

‎خودکلامی(مکرر)۔۔۔زبیر

CHOTI CHOTI KHUSHYAN


اپنا تبصرہ بھیجیں