استاد : اگر تمہارے پاس 86،400 روپے ہوں اور کوئی ڈاکو ان میں سے 30 روپےچھین کر بھاگ جائے تو تم کیا کرو گے؟
کیا تم 30 روپوں کی خاطر اُس کا تعاقب کرو گے، یا باقی کے بچے ہوئے 86،370 روپے لے کر اپنے راستے پر چلتے رہو گے؟
طلباء نے کہا: ہم 30 روپے جیسی حقیررقم کو نظر انداز کر دیں گے۔
استاد نے کہا: کہنے کی حد تک ٹھیک ہے، عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ میں نے دیکھا ہے ذیادہ تر لوگ اُن 30 روپوں کو واپس لینے کے چکر میں ڈاکو کا پیچھا کرتے ہیں۔ نتیجتاً، اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،370 روپے بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔
طلباء نے حیرت سے پوچھا: سر، ایسا کون کرتا ہے؟
استاد نے کہا : یہ 86،400 اصل میں ہمارے ایک دن کے سیکنڈز ہیں۔
کسی 30 سیکنڈز کی بات کو لے کر، چند لمحوں کے وقتی غصے کو بنیاد بنا کر ہم باقی کا سارا دن سوچنے، جَلنے، کُڑھنے میں گزار دیا کرتے، باقی کا سارا دن برباد کرلیا کرتے ہیں۔ یہ لُوٹے گئے 30 سیکنڈز ہمارے باقی بچے 86،370 سیکنڈز کو بھی کھا جاتے ہیں۔
تلخ باتوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں، آپ کا وقتی اشتعال،غصہ، ناراضی آپ سے آپ کے سارے دن کی طاقت نہ چھین لے جائے ۔۔۔ معاف کر دیں، بُھول جائیں، آگے بڑھیں۔