چلو اک نظم لکھتے ہیں
اور اس میں سورۂ النور کی تلخیص کرتے ہیں،
کچھ اپنے فرض کی
پہچان کرتے ہیں،
کچھ اپنے رب سے احکامات کی
تعلیم لیتے ہیں،
زنا و قذف کی کیا کیا حدیں
رب نے مقرر کیں،
بتایا ہے طریقہ مومنو
لِعان کرنے کا،
پھر امٓی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی خاطر،
کس طرح عرشِ معلٰی سے
قرآن کی تنزیل ہوتی ہے،
کس طرح سے اہلِ ایماں کو وہ مالک پاک کرتا ہے،
کہ باطل اپنے چہرے پر اسی دم خاک ملتا ہے،
تمہارے کون سے محرم ہیں رشتے
جان جاؤ تم!
تم کتنی خاص ہو اے عورتو !
پہچان جاؤ تم۔۔۔۔
تمہاری عزت و ناموس کو برہان ملتی ہے،
تمہیں پھر آسمانوں اور زمینوں کے
حقیقی نور کی پہچان ملتی ہے،
اعمالِ کفریہ کیسے میانِ خاک ملتے ہیں
شعور و آگہی کے پھر نرالے باب کھلتے ہیں،
یہ استیذان کے موتی جو بکھرے ہیں
تری زینت کی خاطر ہیں،
ترے زیور کا پردہ ہیں،
جہالت کے تبرُج سے،
اشاعت سے،
تری تحفیظ کرتے ہیں،
تجھے توقیر دیتے ہیں،
تجھے احساس دیتے ہیں،
حیا مالک بھی کرتا ہے!
حیا نبیوں کا شیوہ ہے!
فرشتے بھی اسی شرم و حیا کا پاس دیتے ہیں!
تجھے اک راز دیتے ہیں
مراتب تک پہنچنے کا!
عمل زینہ ہے بس اس نور سے کچھ نور لینے کا
مراتب تک پہنچنے کا