اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتۡۙ ﴿۱﴾
جب آسمان پھٹ جائے گا
When the heaven is cleft
وَاِذَا الۡكَوَاكِبُ انْتَثَرَتۡۙ ﴿۲﴾
اور جب تارے جھڑ پڑیں گے
And when the stars fall off
وَاِذَا الۡبِحَارُ فُجِّرَتۡۙ ﴿۳﴾
اور جب دریا بہہ (کر ایک دوسرے سے مل) جائیں گے
And when the seas are flown away
وَاِذَا الۡقُبُوۡرُ بُعۡثِرَتۡۙ ﴿۴﴾
اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی
And when the graves are scratched
عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَاَخَّرَتۡؕ ﴿۵﴾
تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا
Each soul shall then know what it has sent forth and what has been left behind
يٰۤاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الۡكَرِيۡمِۙ ﴿۶﴾
اے انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دھوکا دیا
O mankind, what has deceived you concerning your Lord, the Generous
الَّذِىۡ خَلَقَكَ فَسَوّٰٮكَ فَعَدَلَـكَۙ ﴿۷﴾
(وہی تو ہے) جس نے تجھے بنایا اور (تیرے اعضا کو) ٹھیک کیا اور (تیرے قامت کو) معتدل رکھا
?Who created you, proportioned you, and balanced you
فِىۡۤ اَىِّ صُوۡرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَؕ ﴿۸﴾
اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا
In whatever form He willed has He assembled you
كَلَّا بَلۡ تُكَذِّبُوۡنَ بِالدِّيۡنِۙ ﴿۹﴾
کوئی نہیں بلکہ تم انصاف ہونے کو جھٹلاتے ہو
Nothing but you belies the judgement
وَاِنَّ عَلَيۡكُمۡ لَحٰـفِظِيۡنَۙ ﴿۱۰﴾
حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں
And undoubtedly, above you, are some guardians
كِرَامًا كَاتِبِيۡنَۙ ﴿۱۱﴾
عالی قدر( تمہاری باتوں کے) لکھنے والے
Honourable, scribes
يَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾
جو تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں
They know what you do
اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِىۡ نَعِيۡمٍۙ ﴿۱۳﴾
بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
Undoubtedly, the righteous are in bliss
وَّاِنَّ الۡفُجَّارَ لَفِىۡ جَحِيۡمٍۙ ﴿۱۴﴾
اور بدکردار دوزخ میں
And undoubtedly, the evil doers are necessarily in Hell
يَّصۡلَوۡنَهَا يَوۡمَ الدِّيۡنِ ﴿۱۵﴾
(یعنی) جزا کے دن اس میں داخل ہوں گے
They shall enter it on the Day of Judgement
وَمَا هُمۡ عَنۡهَا بِغَآٮِٕبِيۡنَؕ ﴿۱۶﴾
اور اس سے چھپ نہیں سکیں گے
And they will not be able to hide therefrom
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا يَوۡمُ الدِّيۡنِۙ ﴿۱۷﴾
اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے؟
And what you know, what the Day of Judgement is
ثُمَّ مَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا يَوۡمُ الدِّيۡنِؕ ﴿۱۸﴾
پھر تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے؟
Again, what you know, what the Day of Judgement is
يَوۡمَ لَا تَمۡلِكُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَيۡـًٔـاؕ وَّالۡاَمۡرُ يَوۡمَٮِٕذٍ لِّلَّهِ ﴿۱۹﴾
جس روز کوئی کسی کا بھلا نہ کر سکے گا اور حکم اس روز خدا ہی کا ہو گا
The day when no soul shall have power for any other soul. And the entire command on that day is of Allah
اللہ کا ارشاد ہے حضرت آد م علیہ السلام کو ہم نے مٹی سے بنایا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب خداوند قدوس عزوجل نے آپ کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ زمین سے ایک مٹھی مٹی لائیں۔ حکمِ خداوندی عزوجل کے مطابق حضرت عزرائیل علیہ السلام نے آسمان سے اتر کر زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھائی تو پوری روئے زمین کی اوپری پرت چھلکے کے مانند اتر کر آپ کی مٹھی میں آگئی۔ جس میں ساٹھ رنگوں اور مختلف کیفیتوں والی مٹیاں تھیں یعنی سفید و سیاہ اور سرخ و زرد رنگوں والی اور نرم و سخت، شیریں و تلخ، نمکین و پھیکی وغیرہ کیفیتوں والی مٹیاں شامل تھی ۔ (تذکرۃ الانبیاء، ص ۴۸)
پھر اس مٹی کو مختلف پانیوں سے گوندھنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ایک مدت کے بعد یہ چپکنے والی بن گئی۔ پھر ایک مدت تک یہ گوندھی گئی تو کیچڑ کی طرح بو دار گارا بن گئی۔ پھر یہ خشک ہو کر کھنکھناتی اور بجتی ہوئی مٹی بن گئی۔ پھر اس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کا پُتلا بنا کر جنت کے دروازے پر رکھ دیا گیا جس کو دیکھ دیکھ کر فرشتوں کی جماعت تعجب کرتی تھی۔ کیونکہ فرشتوں نے ایسی شکل و صورت کی کوئی مخلوق کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں روح کو داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ روح داخل ہو کر جب آپ کے نتھنوں میں پہنچی تو آپ کو چھینک آئی اور جب روح زبان تک پہنچ گئی، تو آپ نے ”الحمدللہ” پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”یرحمک اللہ”یعنی اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے۔ اے ابو محمد (آدم) میں نے تم کو اپنی حمد ہی کے لئے بنایا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ پورے بدن میں روح پہنچ گئی اور آپ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور پھر آگے انسانی نسل کا آغاز ہوا انسان کی تخلیق کے بارے میں االہ فرماتا ہے
يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِن كُنتُم فى رَيبٍ مِنَ البَعثِ فَإِنّا خَلَقنـٰكُم مِن تُرابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ مِن عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُضغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُم ۚ وَنُقِرُّ فِى الأَرحامِ ما نَشاءُ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلاً ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡۚ ﴿سورة الحج ۵﴾
” لوگو! تم (دوبارہ) جی اٹھنے کے بارے میں شک میں ہو تو (اس بات پر غور کرو) ہم نے تمہیں (کس چیز سے) پیدا کیا؟ مٹی سے۔ پھر( تمہاری پیدائش کا سلسلہ کس طرح شروع ہوا؟)نطفہ سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے (جو ) شکل والی (بھی ہوتی ہے) اوربے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لئے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر (اپنی ذات کی) کارفرمائیاں ظاہر کردیں۔ پھر (دیکھو) ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ( کہ تکمیل تک پہنچائیں) اسے ایک مقررہ میعاد تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں ”
الَّذى أَحسَنَ كُلَّ شَىءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلقَ الإِنسـٰنِ مِن طينٍ ٧ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلـٰلَةٍ مِن ماءٍ مَهينٍ ٨ ثُمَّ سَوّىٰهُ وَنَفَخَ فيهِ مِن روحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ وَالأَفـِٔدَةَ ۚ قَليلًا ما تَشكُرونَ ﴿سورة السجدة ٩﴾
” (وہی اللہ ہے) جس نے جو چیز بھی بنائی، خوب ہی بنائی۔ اور ا س نے انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی، پھراس کی نسل نچڑے ہوئے حقیر پانی سے چلائی، پھر اس (کے پتلے ) کو (نک سک سے) درست کیا، پھر پھونک مار کر اس میں روح پیداکی، اور تم لوگوں کو کان، آنکھ، اور دل دیئے۔ ( اس پر بھی) تم لوگ کم ہی (اس کا) شکر کرتے ہو۔ ”