مدتیں ہو گئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے
چاند تارے بھی ان کا اے جالبؔ
تھرتھراتے ہیں سامنا کرتے
(حبیب جالب)
دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا، شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (سورۃ الزمر: ۸) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا ہے: دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ (ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دُعا عین عبادت ہے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام وصالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام (قرآن کریم) میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
دُعا کی ضرورت:
ہر شخص محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں، وہی سائلوں کوعطا کرتا ہے، ارشاد باری ہے: اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔ (سورۃ محمد:۳۸) انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اللہ سے بے نیازی کا شائبہ بھی نہ ہونے دے کیونکہ یہ مقام عبدیت اور دعا کے منافی ہے۔
دُعا کی اہمیت:
دعا کی اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ نیز ارشاد باری ہے: (اے پیغمبر) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (فرمادیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں، جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۶) غرضیکہ دعا قبول کرنے والا خود ضمانت دے رہا ہے کہ دعا قبول کی جاتی ہے، اس سے بڑھ کر دعا کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے بندوں کوحکم دیتے ہوئے فرمایا: تمہارے پروردگار نے کہا کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔(سورۃ المؤمن: ۶۰)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کے فضائل اور آداب بھی بیان فرمائے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کے یہاں دعا سے زیادہ کوئی عمل عزیز نہیں ہے۔ یعنی انسانوں کے اعمال میں دُعا ہی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کوکھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے۔ (ابن ماجہ ۔ باب فضَل الدُعاء)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے جس کے لئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دُعا کرے۔(ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے، (الدُّعَاءُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ) (رواہ ابویعلی وغیرہ)۔ دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پروردگار میں بدرجہ غایت حیا اور کرم کی صفت ہے، جب بندہ اس کے آگے مانگنے کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے تواس کوحیا آتی ہے کہ ان کوخالی ہاتھ واپس کردے، یعنی کچھ نہ کچھ عطا فرمانے کا فیصلہ ضرور فرماتا ہے۔ (سنن ابی داؤد) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد درحقیقت سائل کے لئے اُمید کی کرن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جومانگنے والوں کوکبھی محروم نہیں کرتا اور بندہ کی مصلحت کے مطابق ضرور عطا کرتا ہے۔
قرآن وحدیث سے جہاں دُعا کی اہمیت وفضیلت اور پسندیدگی معلوم ہوتی ہے، وہیں احادیث میں دُعا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بھی وعید آئی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوبندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی۔باب ماجاء فی فضل الدعاء) دنیا میں ایسا کوئی نہیں ہے جو سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہو، حتی کہ والدین بھی اولاد کے ہروقت مانگنے اور سوال کرنے سے چڑھ جاتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ جوبندہ اس سے نہ مانگے وہ اس سے ناراض ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دُعا نہ کرنا تکبر کی علامت ہے اور مانگنے پر اسے پیار آتا ہے۔
دُعا کے چند اہم آداب:
دعا چونکہ ایک اہم عبادت ہے، اس لئے اس کے آداب بھی قابل لحاظ ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کے بارے میں کچھ ہدایات دی ہیں، دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ ان کا خیال رکھے۔احادیث میں دعا کے لئے مندرجہ ذیل آداب کی تعلیم فرمائی گئی ہے، جن کو ملحوظ رکھ کر دُعا کرنا بلاشبہ قبولیت کی علامت ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی وقت بعض آداب کو جمع نہ کرسکے توایسا نہ کرے کہ دُعا ہی کوچھوڑ دے، دعا ان شاء اللہ ہرحال میں مفید ہے۔ آداب دعا میں بعض کورکن یا شرط یا واجب کا درجہ حاصل ہے، جبکہ کچھ چیزیں مستحبات دعا کے زمرہ میں آتی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن سے دعا کے موقع پر منع کیا گیا ہے، جومنہیات ومکروہات دُعا کہلاتی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
دعا کے چند اہم ارکان، شرائط اور واجبات :
اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ دُعا کرنا، یعنی یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری ضرورتوں کوپوری کرنے والا ہے، ارشاد باری ہے: تم لوگ اللہ کو خالص اعتقاد کرکے پکارو ۔ (سورۃ المؤمن:۱۴)
دعا کے قبول ہونے کی پوری اُمید رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے وہ بلاشبہ قبول کرے گا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ سے اس طرح دُعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو ۔ (ترمذی)
دعا کے وقت دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف حاضر اور متوجہ رکھنا کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس بندہ کی دُعا قبول نہیں کرتا جو صرف اوپری دل سے اور توجہ کے بغیر دُعا کرتا ہے ۔ (ترمذی) غرضیکہ دُعا کے وقت جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور خشوع وخضوع اور سکون قلب ورقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو ۔
دعا کرنے والے کی غذا اور لباس حلال کمائی سے ہونا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوشخص دور دراز کا سفر کرے اور نہایت پریشانی وپراگندگی کے ساتھ ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتے ہوئے دُعا کرے جب کہ اس کی غذا اور لباس سب حرام سے ہو اور حرام کمائی ہی استعمال کرتا ہو تواس کی دُعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم)
دُعا کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجنا۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی دُعا مانگے توپہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی وثنا سے دُعا کا آغاز کرے پھر مجھ پردرود بھیجے، پھر جو چاہے مانگے۔ (ترمذی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتی ہے یعنی درجۂ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے۔ (ترمذی)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دعا مظہر عبدیت اور ایک اہم عبادت ہے۔ دعا مضطرب قلوب کے لئے سامان سکون، گمراہوں کے لئے ذریعۂ ہدایت، متقیوں کے لئے قرب الٰہی کا وسیلہ اور گناہگاروں کے لئے اللہ کی بخشش ومغفرت کی بادِ بہار ہے۔ اس لئے ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم دشمنوں سے نجات اور طرح طرح کی مصیبتوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس اہم اور مہتم بالشان عبادت کے ارکان وشرائط وواجبات ومستحبات کے ساتھ اور منہیات ومکروہات سے بچتے ہوئے اپنے خالق ومالک کے سامنے وقتاً فوقتاً خوب دعائیں کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں اپنے سے مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
سر جی !
اسلام علیکم!
میں نے تقریبا 4 سال آپ کے شعور پڑھنے شروع کیے ہیں ۔۔
یہ بہت ہی اچھی چیز ہے۔۔
اللہ پاک آپ سب کو تندروستی عطا فرمے۔امین
میں نے ای میل لکھا ہے آپ اس میں شعور بھیج دیا کریں ۔۔
شکریہ۔۔