بیشک اللہ تعالی ہی رزق دینے والا اور سب سے بہترین رزاق ہے اور زمین پر جتنے بھی چلنے پھرنے والے ہیں ان سب کی روزیاں اللہ تعالی کے ذمہ ہیں ، اور یقینا کسی لالچی کا لالچ اللہ تعالی کے رزق کو زیادہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی نا پسند کرنے والے کی نا پسندیدگی اسے ہٹا سکتی ہے ۔
اور یہ اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ اس نے اس رزق کے معاملہ میں لوگوں میں فرق رکھا جس طرح کہ ان کی خلقت اور اخلاق میں فرق کیا ہے ۔
تو وہ اللہ تعالی جسے چاہے رزق زیادہ اور جسے چاہے کم دے اور ایک قوم کے رزق میں کشادگی کرتا ہے تو دوسروں کے رزق میں تنگی-
اللہ سبحانہ و تعالی بندوں کے رزق کا ضامن ہے اس علم اور کتاب کی بنا پر جو کہ پہلے سے اسے تھا اور اللہ تعالی کو اس کا علم تھا اور اس نے لکھ بھی دیا کہ کس کو رزق میں تنگی ہو گی اور کسے کشادگی اور تنگی میں اللہ تعالی کی حکمت یہ بھی ہے کہ وہ بندوں کو نعمتوں اور مصائب کے ساتھ آزماتا ہے ۔
جیسا کہ ارشاد باری ہے ۔
“ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں ”
اور فرمان ربانی ہے :
“انسان ( کا یہ حال ہے کہ ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا ہے اور جب وہ آزماتا ہے اور اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی( اور ذلیل کیا )” الفجر 15۔16۔
پھر اس کے بعد فریایا ” کلا ” ایسا ہر گز نہیں ۔ یعنی معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ انسان گمان کر رہا ہے بلکہ اللہ تعالی اگر کسی کو نعمتیں دیتا یا تنگی ہوتی ہے ، تو وہ بطور امتحان اور آزمائش ہے نہ کہ اسے عزت دینے اور ذلیل کرنے کے لۓ ، تو اس آزمائش سے پتہ چلتا ہے کہ کون صبر کرنے اور شکر کرنے والا اور کون آہ و بکا کرنے والا ہے ۔
ا ور اللہ تعالی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے-