اسماء الحسنى – الحکیم


الحکیم

بڑی حکمتوں والا

الحکیم اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے۔
الحکیم کے معنی ہیں’’حکمت ودانائی والا‘‘:

حکمت و دانائی والا،جو ہر چیز کو بہتر انداز میں سمجھنے والا ہے،اسکا ہر کام حکمت پر مبنی ہے۔ حکمت کا مطلب ہے: ’’ہر چیز کو اس کے مقام ومرتبہ پر رکھنا۔‘‘ اس کی تخلیق میں اور اس کے احکام میں اعلیٰ ترین حکمت پوشیدہ ہے۔ اس نے ہر چیز کو بہترین انداز سے پیدا فرمایا:

{وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ} (المائدہ: ۵۰)
’’یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟‘‘

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

’’ بے شک اللہ تعالیٰ ہی فیصل ہے۔ اور حکم بھی صرف اسی کا حق ہے۔‘‘

اسے ابوداؤد نے روایت کیا۔

الحکم سے مراد ایسا حاکم ہے جو اپنے بندوں کے درمیان دنیا اور آخرت میں فیصلہ کرے گا۔ دنیا میں وحی کے ذریعے اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔ جو وہ اپنے انبیاء پر نازل کرتا ہے۔ اور آخرت میں اپنے بندوں کے دنیاوی اختلاف کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق فیصلے کرے گا۔ پھر وہ اہل باطل اور مشرکوں کے خلاف اہل حق اور اہل توحید کی حمایت کا فیصلہ کرے گا۔ اور ہر مظلوم کے لئے انصاف کے ذریعے ظالم سے اس کا حق دلائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے اقوال ، افعال اور اپنے فیصلوں میں عادل حکمران ہے۔

الحکیم سے مراد: دانائی والا اور جو کوئی کام عبث اور بے فائدہ نہ کرے۔ اور نہ ہی کوئی حکم بلا فائدہ جاری کرے۔ اللہ سبحانہ ایسا دانا ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو نہایت محکم کر کے پیدا کیا ہے۔ لہذا رحمن کی تخلیق میں کوئی عیب نہیں۔ اور نہ کسی قسم کی کمی ہے۔ اور نہ ہی اس کی شریعت میں کسی قسم کا تضاد اور تناقض ہے۔ اسی لئے بندوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے باہمی جھگڑوں کے فیصلے اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق کروائیں اور اپنے تمام باہمی معاملات میں شریعت الہی کے مطابق ہی فیصلے کیا کریں۔ وہ کسی چیز کو بے مقصد پیدا کرتا ہے، نہ بے فائدہ کوئی قانون جاری فرماتاہے۔ دنیا وآخرت میں اسی کا فیصلہ نافذ ہے، تینوں طرح کے حکم اسی کے لیے ہیں۔ ان میں اس کا کوئی شریک نہیں یعنی شریعت (اور احکام نافذ کرنے) میں بھی بندوں کے درمیان وہی فیصلہ کرتا ہے۔ تقدیر میں بھی اور جزاوسزا میں بھی ۔

Al Hakeem
Bari Hikmatoon Wala


اپنا تبصرہ بھیجیں