کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے


ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے

جس ملک کی ایک چوتھائی یا غالباً اس سے بھی کچھ زیادہ آبادی کے پاس رہنے کو گھر، پہننے کو کپڑا اور کھانے کو روٹی نہ ہو، کیا اس ملک کے چند افراد کو تمام عیاشیوں کا حق دیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں نہ کسی بحث کی گنجائش ہے اور نہ کسی سیاسی نظریے یا سماجی فلسفے کا حوالہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ تو ایک بالکل صاف اور سادہ سی بات ہے۔

اس ملک کو آزاد کرانے میں قوم کے ہر طبقے نے حصہ لیا۔ پاکستان پوری قوم کی قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اسے بھی چھوڑیے، اس بات کا جواب دیجیے کہ وہ کون سی منطق اور کون سا نظام اخلاق ہے جس کے پیش نظر چند بے ضمیر، موقع پرست افراد نے پوری قوم کو لوٹنے اور کھسوٹنے کا حق پا لیا ہے۔بد انتظامی اور انصاف نہ ملنے کے سبب عوام اپنی زندگیوں کا چراغ گل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

سارے نظام پر نگاہ ڈالی جائے تو انسان، عام شہری اور جمہور اس نظام میں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس جمہوریت کے فریم سے جمہور غائب ہے اور باقی ریت ہی ریت ہے، حکومت کی کسی پالیسی، منصوبہ بندی اور مستقبل بینی میں بنیادی اکائی یعنی انسان عام شہری اولین ترجیح نظر نہیں آتا۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کی داستانیں کہاں کہاں دراز نہیں، کسے خبر نہیں کہ ایک خاندان 25 ہزار کینال پر شاہی قیام گاہ بنا چکا ہے، دوسرے نے اسی شہر میں 2 سو کنال پر بم پروف محل بنایا ہے،

رہی بات عوام کی تو عوام سادہ دل ہیں، یہ نعرے لگاتے ہیں، کبھی کسی کے لیے تو کبھی کسی کے لیے، یہ اپنے اپنے لیڈروں کے نام پر لڑتے بھی ہیں، اپنے گھر کے آنگنوں میں لاشیں بھی لاتے ہیں، الیکشن سے پہلے بھی جھگڑتے ہیں، الیکشن کے روز بھی اور الیکشن کے بعد بھی۔

قائد اعظم کے پاکستان پر حکمرانی کرنے والو! کبھی اپنے اندر اس عظیم رہنما جیسے کوئی دو چار اصول ہی پیدا کر لو کہ جس کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو کہنا پڑا کہ ’’ہندوستان کے تمام سیاسی رہنما مجھے ملنے آتے ہیں، ایک قائد اعظم ہیں جنھیں ملنے کے لیے مجھے خود جانا پڑتا ہے، جب میں انھیں ملنے جاتا ہوں تو مجھے وہ دروازے پر خوش آمدید نہیں کہتے، مجھے ڈرائنگ روم میں پانچ سے پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے، پھر جب وہ آتے ہیں میں ان سے ہاتھ ملاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا ہاتھ شیر کے جبڑے میں ہو۔

آج پاکستان کا ہر بچہ بڑا سر سے پاؤں تک قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اس میں غریب اور دولتمند سب شامل ہیں، بیرونی قرضوں کی مالیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اربوں ڈالر کے قرضے صرف گزشتہ تین سال کے دوران لیے گئے۔ افسوس صد افسوس کہ قائد اعظم کے ملک پر حکمرانی کرنے والے کھوٹے سکے ہر وقت کرپشن کے گیت گاتے ہیں عجیب لوگ ہیں جن کے لیے عوام کہہ رہے ہیں کہ

ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے

Hum Bachatay Reh Gay Deemak Say Apna Ghar
Kursiyoon Kay Chand Keeray Mulk Sara Khaa Gay


اپنا تبصرہ بھیجیں