ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گلی کے سرے پر بہت پرانا درخت تھا جس کے اوپر کئی پرندوں کے گھونسلے تھے اوپر پرندے اور نیچے بچے کھیلا کرتے تھے، پھر یوں ہوا بہت سے لوگوں کو اُس درخت سے شکایت رہنے لگی، واپڈا والوں نے کہا کہ اگر اسکی شاخیں بہت بڑھ گئیں تو بجلی کی تاروں کہ نقصان ہو گا سو اسے کاٹ دینا چاہیے، صفائی کے محکمے والے بھی درخت کاٹنے کے حق میں تھے انہیں بکھرے پتے سمیٹتے وقت لگتا تھا۔ ٹھیکیدار کو جب سے یہ بات پتہ چلی تھی کہ اِس پرانے درخت کی لکڑی بہت قیمتی ہے تو دن رات لوگوں کو اُسکی برائیاں بتایا کرتے، وہ کہتے کہ بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ پرندوں کا شوروغل ختم ہو جائے گااور سارا محلہ پر سکون ہو جائے گا، پھر ایک روز محلے کے لوگوں نے وہ درخت کاٹ دیا۔ پرندے آخری بار شوروغل مچاتے جانے کہاں چلے گئے۔۔۔ ٹھیکیدار صاحب سچ کہتے تھے اب شوروغل بالکل بھی نہ تھا۔۔۔
لیکن محلے کے زمین سیم زدہ ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔