مسلمان اور اسلام


پہلے مسلمان اسلام کے مطابق چلتے تھے
اور اب اسلام کو اپنے مطابق چلاتے ہیں

مسلمان اور اسلام

پوری دنیا کے مختلف رنگ و نسل، قوموں اور تہذیب و ثقافت سے وابسطہ ایک بلین لوگ جنوبی – فلپائن سے لے کر نائیجیریا تک تمام اپنے ایمان اسلامی پر متحد ہیں۔ تقریب ٪18 مسلمان عرب دنیا میں ، دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی انڈونیشیا میں، ایشیا کے کافی حصوں اور اکثر یت افریقہ میں بستے ہیں، جبکہ یہ نمایاں اقلیتوں میں روس، چین، جنوبی و شمالی امریکہ اور یورپ میں آبادہیں۔

اسلام کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ یہ حقیقت خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے تمام بنی نوع انسانوں تک پہنچائی۔ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ جن کا مذہب اور زندگی کا ہر راستہ اسلام ہے۔ مسلمان ، امن، عفو و درگزر اور رحمدلی کے مذہب کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی اکثریت اپنے انتہائی تکلیف دہ موقعوں پر صبر سے کام لیتی ہے جو کہ ان کے ایمان کے ساتھ جڑے ہیں ۔

آج مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن و حدیث کی اصل تعلیمات کو تو خوش نما غلافوں میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے اور شخصیات اور ان کی انفرادی رائے اور قیاسات کے پیچھے اندھا دھند دوڑ رہے ہیں ۔دنیا اور اس کی رنگینیوں نے یوں تو ہر دور میں انسانوں کو اپنی طرف کھینچا ہے، مگر عصر حاضر میں دنیا کا حسن اس قدر دل کش ہو گیا ہے کہ اس سے نظر ہٹانا کوئی آسان کام نہیں رہا۔ انسان مغرب کا ہو یا مشرق کا وہ اس دیوی کے روپ کا اسیر ہو چکا ہے، وہ مسلمان جن کے پاس یہ یقینی علم موجود ہے کہ یہ روپ اصلاً ایک بہروپ ہے۔ آج پورا عالم اسلام ہمہ گیر زوال کا شکار ہے۔مسلمانوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آج کے مسلمان کی کمزور حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ اسلام سے جدا ہو گیا ہے۔ جب تک ہم حقیقتاً اسلام سے وابستہ رہیں گے ہم پر زوال نہیں آسکا ہے۔ جب ہم نظریاتی اور عملی سطح سے اسلام سے دور ہوتے ہیں تو ہمیں زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے

قرآن میں یہ وعدہ کچھ یوں بیان ہوا ہے اگر تم باایمان رہوگے تو تم ہی سرفراز رہو گے۔ اگرچہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت بھی کی ہے مسلمانوں نے جب تک خدمت اور اخلاق کے جذبے سے سرشار ہو کر حکومت کی وہ باعزت بھی رہے اور باکمال بھی۔ جب تک وہ خالص اسلامی اصولوں پر کاربند رہے کامیابیاں ملتی رہیں اور جب مسلمانوں نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ کے ملوکیت کو اپنایا وہیں سے زوال نے انہیں آلیا۔اور وہ اس کا شکار ہوتے چلے گئے ۔

آج مسلمانوں کو قرآن کی طرف واپس پلٹنا ہو گا وہی ان کا رہنما ہے اسے پوری معنویت کے ساتھ قبول کرنا ہو گا قرآن نے جو درس توحید دیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسے اختیار کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ انسان فطرت توحید پر پیدا ہوا ہے۔ گویا توحید انسانی فطرت میں شامل ہے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلانا فطرت کی طرف واپس بلانا ہے یہی اس وقت سب سے بڑی اساس ہے۔حقیقت توحید سے آشنا ہو کر تمام عالم بشریت اپنے مسائل پر قابو پا سکتی ہے اگر ہم حقیقت توحید سے وابستہ ہو جائیں تو اقتصادی،سیاسی،اخلاقی،انفرادی اوراجتماعی مسائل سے نہ صرف چھٹکارا پاسکتے ہیں بلکہ امن و سکون اور عافیت کا سامان اس دنیا میں بھی مل سکتا ہے اور آخرت کی منزل بھی آسان ہو سکتی ہے قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان سیرت سے بے نیاز ہو سکتا ہی نہیں ہے۔ ہر آیت سیرت سے جڑی ہوئی ہے یوں تو پوری سیرت پر عمل کرنا لازمی ہے مگر امت مسلمہ کو سیرت کا ایک ایسا پہلو ہے جسے فوراً اختیار کرنا چائیے۔

قرآن تو جاہلی عصبیت اور شخصیت پرستی کو توڑنے کے لیے جابجا احکامات بیان کرتا ہے ۔ مگر ۔۔۔۔ آج ہم نے فلاں علامہ فلاں شیخ فلاں مولانا کو دین کا اصل علمبردار سمجھ رکھا ہے

اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائے! آمین

Pehlay Muslman Islam Ky Mutabiq Chltay Thay
Or Ab Islam Ko Apnay Mutabiq Chlaty Hen


اپنا تبصرہ بھیجیں