اللہ سے معافی مانگنے کا آسان طریقہ
یہ ہے کہ آپ اللہ کے بندوں کو معاف کرنا شروع کر دیں. . .!
کسی بھی انسان میں قدرت تحمل اور برداشت کاہونا ایک ایسی فضیلت ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پاتا اور بہت سی فضیلتوں کو حاصل کرتا ہے ۔معافی مانگنا اور معاف کرنا اعلیٰ ظرفی ہے، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو معاف کرنا شروع کر دیں، اللہ آپ کو معاف کرے گا- غلطیوں کو معاف نہ کرنے سے دوستی کا رشتہ کمزور ہوتا ہے امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
“مَنْ لَم ُ يَحْتَمِل زَلَل الصِّدِّيقِ مَاتَ وَحِيداً
” دوستوں کی خطأوں کو تحمل (برداشت) نہ کرنے والا تنہائی کی موت مرتا ہے ”
ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور معاف کر دو ، اُن کے لیے دل میں بغض نہ رکھو ، اُن کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئو ، اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھائو نا کہ اُس سے بدلہ لو اور اُسے جگہ جگہ ذلیل کرو۔ وہ کیسا مومن/مسلمان ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مومن و مسلمان محفوظ نہ رہے۔ کہنے کی اور سننے کی حد تک ہمیں یہ باتیں بہت اثر کرتی ہیں لیکن جب ہم پر ایسا وقت آتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن یا بھائی کی غلطی کو معاف/درگزر کریں- اگر ہم نے کسی کا دل دُکھایا ہے یا کسی کے ساتھ بُرا کیا ہے یا جب تک ہمیں وہ انسان معاف نہ کرے گا جس کے ساتھ ہم نے ایسا کیا تو اللہ تعالی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
آپ سب بھی اس سے متفق ہوں گے کہ لوگ اگر دوسرے کے ساتھ زیادتی کے بعد یا کوئی غلطی سرزد ہوجانے کے بعد سامنے والے کے آگے اپنی غلطی کا اعتراف کریں یا معافی مانگیں تو نہ صرف انہیں خود سکونِِ قلب محسوس ہوگا بلکہ سامنے والے کے دل میں بھی اُن کی عزت و محبت بڑھ جائے گی۔ پھر یہ بھی کہ اگر کوئی غلطی، کوتاہی یا کسی کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی کے آپ مرتکب ہورہے ہیں تو معافی اور اعتراف کے بعد کوشش کریں کہ یہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔ یعنی اپنی تصحیح کرنا بھی لازمی ہے کہ دیکھیں کہ کہاں اور کیا غلطی ہوئی ہے، اب اسے کس طرح درست کیا جائے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر دوسرے فریق سے معافی مانگنے سے خوشگوار تعلقات استوار ہوتے ہیں۔
دوسرے فریق کو بھی فراخ دلی سے اس کی معافی کو سراہنا چاہیے، اسے عزت دینی چاہیے۔ بعض جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک بندہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگتا ہے، دوسرے کے دل میں مزید بغض آجاتا ہے کہ دیکھا میرا اندازہ صحیح نکلا، اس نے میرے ساتھ برا کیا ہے، آئندہ بھی اس سے مجھے احتیاط کرنی چاہیے۔ یعنی دونوں طرف سے فراخ دلی کا مظاہرہ تعلقات میں بہتری لائے گا۔ کیونکہ بندہ گناہ کرتا ہے اور جب اسے اپنے گناہ کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی طلب کرتا ہے تو مہربان رب اپنے بندے کا بڑے سے بڑا گناہ معاف کردیتا ہے۔ پھر وہ بندہ رب کی رضا کی خاطر آئندہ اس گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس مثبت عمل سے بندہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے۔ یہی صفت بندوں میں بھی ہونی چاہیے۔ اپنے رب کی خوشنودگی کے لیے بندوں کی معافی کو قبول کرکے نہ صرف انہیں معاف کرنا چاہیے بلکہ ان کے لیے اپنے دلوں کو بھی صاف رکھنا چاہیے۔
ہمارے سامنے آپؐ کی مثالِ عظیم موجود ہے۔ بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کردیتے۔ اسی معاف کرنے کی عادت کی بنا پر آپؐ نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا۔ یہ عمل صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ انسان بندہ بشر ہے، اس سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں، کچھ صحابہ کرامؓ سے غلطیاں سرزد ہوئیں تو انہوں نے اپنی غلطی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ سزا کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ تاریخِ اسلام میں ہمیں ایسے بہت سے واقعات نظر آتے ہیں۔ اپنی غلطی پر معافی نہ مانگنا تکبر اور اکڑ پن ہے۔ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا اور ضد پر قائم رہنا ایسی خصلت ہے جس کی وجہ سے سوائے دوریوں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔