الغفار
در گزراور پردہ پوشی کرنے والا
”جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چُھپائے گا، اسے ذلّت و رسوائی سے بچائے گا تو اﷲ کریم روزِ قیامت اس کے گناہوں کو چُھپا لیں گے”
“اگر وہ شخص غلطیوں کا عادی نہیں ہے ، اور نہ ہی وہ جرائم میں اشتہاری مشہور ہے تو پھر اس کی پردہ پوشی کرنا جائز ہے، اسے وعظ و نصیحت کی جائے اور دوبارہ غلطی کرنے سے خبردار کیا جائے۔
لیکن اگر وہ جرائم اور گناہوں کا عادی ہے، تو پھر ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اس کی اطلاع ایسے افراد یا اداروں تک پہنچائی جائے جو اسے ایسی سزا دیں جس سے وہ غلطیوں اور جرائم سے باز آ جائے۔
اور اگر غلطی کا تعلق لوگوں کے حقوق سے ہو، مثلاً: کسی گھر سے چوری کر رہا ہو، یا دکان میں نقب لگا رہا ہو، یا کسی عورت سے زنا کر رہا ہو تو پھر اس کی پردہ پوشی کسی صورت میں جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں اس کی پردہ پوشی سے لوگوں کی حق تلفی ہو گی، اس میں انسان کی پاکدامنی داغ دار ہو گی اور یہ خیانت کے زمرے میں آئے گا، اسی طرح اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے کسی شخص کو قتل کیا ہے یا کسی مسلمان کو زخمی کیا ہے تو پھر بھی اس کی پردہ پوشی درست نہیں ، اس سے بھی متاثر مسلمان کی حق تلفی ہو گی، بلکہ اسے چاہیے کہ متعلقہ اداروں تک یہ بات پہنچا کر اپنی گواہی درج کروائے، تا کہ مظلوم مسلمان کو اس کا حق مل سکے،
واللہ اعلم”