ایک انسان جب دنیا میں آتا ہےتواس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے،اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک گمراہی کا راستہ اور دوسرا حق اور نجات کا راستہ ، گمراہی کے راستے کی دعوت دینے والا شیطان ہوتا ہے ،حق کے راستے کی دعوت والے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے اصحاب ؓاور صالحین امت وعلماء کرام ہوتے ہیں، جن کا کام ہدایت والے راستہ کی رہنمائی کرنا اور گمراہیوں والےراستے سے روکنا ہوتاہے، جس کو تبلیغ اور دعوت کہتے ہیں۔
تبلیغ کے معنی ہیں پیغام پہنچانااور’’ اسلام میں تبلیغ ‘‘اللہ تعالیٰ کےپیغام کو بندوں تک پہنچانے کو کہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے آخیر میں اپنا آخری پیغام جس کو کلام اللہ یا قرآن پاک کہا جاتا ہے نبی آخرالزماںﷺ کے ذریعہ قیامت تک آنی والی انسانی نسلوں کے لیےرشدو ہدایت کا ذریعہ بنا کر بھیجا ، اسی قرآنی پیغام کو تبلیغ کہتے ہیں اب چونکہ قیامت تک کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں ہے، اس لیے اب اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانےذمہ داری اس امت کے سپرد ہے،اور ان کی رہنمائی کے لیے اسلامی دستور قرآن و سنت کی شکل میں موجود ہے ، جس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر انسان تک پہنچنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ چنانچہ اسلامی کے تبلیغ کے تین طریقہ ہیں۔زبان کے ذریعہ ، تحریرکے ذریعہ اور عمل کے ذریعہ۔پھر ان تینوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں ۔ تبلیغ کے زبانی طریق کار میں’’ امربالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ وغیره شامل ہیں جو تبلیغ اور دعوت کا ایک اہم رکن ہےباقی۔ تحریری تبلیغ ،اور عملی تبلیغ ان کا تذکرہ بھی ضمنا اسی میں آجائے گا۔
تبلیغ کا مقصد یہ ہےکہ’’امربالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘ کے ذریعہ ،انسان کی پوری زندگی کتاب وسنت کے مطابق ہوجائے ’’رب چاہی ہو ‘‘ ’’من چاہی نہ ہو‘‘ ا سلام میں مکمل طور سے داخل ہوجائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۲۰۸ [٢:٢٠٨]
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے
تبلیغِ اسلام کے لیے اپنا کردار بھی تشکیل دینا ہو گا کیونکہ کردار الفاظ سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔’’بہترین مبلغ وہ ہے جس کے پاس تبلیغ کے لیے الفاظ کی بجائے کردار ہو‘‘
قرآن مجید میں ارشاد فر ما یا گیا ۔
﴿ لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ…١٦٤﴾…آل عمران
“یقیناً اللہ نے مومنین پر احسان فر ما یا کہ ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان پر قرآن کی آیات تلاوت کرتا ہے ان نفوس کا تزکیہ کرتا انہیں کتا ب کی تعلیم دیتا اور انہیں حکمت سکھاتا ہے”
چنانچہ ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی نفسیات کے بنیا دی اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔مختلف اوقات اور کیفیات میں انسانی طرز عمل ملحوظ رکھیں ۔انسانوں کے انداز فکر اور بعض اسباب کے تحت اس میں پیدا ہو نے والی کجی اور کمزوری کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو تا کہ دعوت دین پیش کرتے ہو ئے انسان کے بارے میں بنیادی حقائق کو پیش نظر رکھا جا ئے۔
سورۃ النحل میں فرمایا ۔
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ …١٢٥﴾…النحل
“آپ انہیں اپنے رب کی راہ کی طرف بلا ئیں حکمت عمدہ نصیحت اور احسن طریق سے بحث و تمحیص کے ذریعے ”