مشین کو زنگ لگے تو پرزے شور کرتے ہیں
عقل کو زنگ لگے توزبان فضول بولنے لگتی ہے
زبان بظاہر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن زندگی میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ گوشت کا یہ لوتھڑا کسی کی زندگی بنا بھی سکتا ہے اور کسی زندگی بگاڑ بھی سکتا ہے۔ کہیں تو اس میں ایسی شیرینی پائی جاتی ہے جو شہد سے بھی زیادہ میٹھی اور محسور کن ہوتی ہے تو کہیں یہ زہر بھرے تیر کی طرح لگتی ہے جس کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔
اگر زبان پراثر ہے تو آسمانوں کی اونچائی بھی بندہ چھولیتا ہے اور اگر بے اثر ہے تو دوزخ کی آگ بھی مقدر بن سکتی ہے اکثر لوگ اپنے بھائیوں کی غیبت میں مصروف ہوتے ہیں۔ بڑے مزے لے لے کر قصے سناتے ہیں۔ کہیں پرضرورت پڑے تو مرچ مسالے کا اضافہ بھی کردیتے ہیں۔ صرف دکھاوا اور خود کومصروف رکھنے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ غیبت انتہائی سخت گناہ ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے والا دراصل اپنےمردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے بھائیوں کا گوشت مت کھاؤ‘ اپنے بھائی کی بات کو اپنے تک رکھو اور اس کو اس طرح مت اچھالو کہ دوسرے لوگوں تک غیبت کے انداز میں پہنچے۔ اسے اچھے الفاظ میں یاد کرو۔ زبان کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں استعمال کرو۔ اسے غیبت‘ چغلی جیسے کاموں میں مت لگاؤ۔ اپنی زبان کی حفاظت کرو‘ اسے ایسی جگہ استعمال کرو جو بہتر ہو ورنہ چپ رہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’چپ رہنا بھی ایک عبادت ہے۔‘‘
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک جگہ ظلم ہورہا ہے اور آپ اس پر چپ کرکے گزر جاؤ بلکہ اسے روکنے کی کوشش کرو اپنے عمل سے‘ اپنے ارادے سے‘ اپنی زبان سے اور جب ایسا نہ کر پاؤ تو چپ رہو اور اسے اپنے دل میں غلط کہو اور یہ ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
سرور کونین سیدنا حضور نبی کریم ﷺ جب معراج شریف پر گئے تووہاں آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو خود کو نوچ رہے تھے‘ آپ ﷺ نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل امین علیہ السلام نے فرمایا کہ وہی لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے بھائیوں کا گوشت کھاتے تھے‘ یعنی ان کی غیبت کرتے تھے۔
ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا: یارسول اللہ ﷺ ایسی چیز بتلا دیجئے جس کو میں کروں اور صحیح رہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ پر ایمان رکھ اور اس پر ڈٹا رہ‘‘
اُس نے پھر پوچھا: ایسی چیز جس سے میں زیادہ ڈروں آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک نکال کر کہا: ’’یہ چیز ہے‘‘ اس سے ڈرو‘ اسی طرح حضور نبی پاک ﷺ سے کسی نے پوچھا :اے دوجہانوں کے سردار !سکون کیسے ملے گا؟ نجات کی راہ کیا ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھا کرو۔ اپنےگھر تک محدود رہو‘ اپنے گناہوں کو یاد کرکے رویا کرو۔ یعنی اپنی زبان کو فضول باتوں میں استعمال مت کرو بلکہ اسے ذکرالٰہی میں مصروف رکھو تاکہ تو گناہوں سے بچارہے اور گھر تک محدود رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ گھر سے نہ نکلے بلکہ یہاں اس سے یہ مراد بھی لی جاتی ہے کہ اپنی بیویوں تک محدود رہو تاکہ گناہوں کے دلدل میں نہ پھنس سکو اور باہر فضول باتوں چغلی‘ غیبت اور زنا جیسی لعنتوں سے بچے رہو۔
تیسری بات کہ گناہوں کو یاد کرکے رویا کرو تاکہ تمہیں اور آخرت اور سزا و جزا کا ڈر رہے اور مزید گناہوں سے بچ سکو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: لوگو! اپنا محاسبہ کرلو‘ اپنے آپ کو جانچ لو‘ قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے‘‘
کہتے ہیں کہ جب ابن آدم پر صبح ہوتی ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء زبان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ اے زبان ہم تمہارے ساتھ ہیں تو سیدھی رہ تو پورا معاملہ سیدھا رہے گا اگر تو ٹیڑھی رہے گی تو سب کچھ ٹیڑھا ہوگا۔ ہر عضو زبان کا محتاج ہوتا ہے کیونکہ اگر زبان شیرینی بانٹتی ہے تو نیکی کی ترغیب ملے گی‘ لوگ اس سے خوش ہونگے‘ اچھے کاموں کی طرف جسم بھی راغب ہوگا اور اگرزبان برائیوں کی باتوں میں لگ گئی تو پورا جسم اس سے الگ کیسے رہ سکتا ہے۔ اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا جو لوگ عقلمند ہوتے ہیں وہ ہمیشہ کم بولتے ہیں‘ جو بولتے ہیں تو تول کر بولتے ہیں اور جوبے عقل ہوتے ہیں وہ موقع محل نہیں دیکھتے بس بولتے رہتے ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا بلکہ بعض لوگوں کا لہجہ ایسا ہوتا ہے‘ جیسے لڑرہے ہوں‘ زبان ہی انسان کی پہچان ہے۔ اس سے اس کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس کیٹاگری کا ہے کتنے پانی میں ہے جس سے کسی میٹریل پر لگا لیبل اس کی پہچان ہے اسی طرح زبان انسان کا لیبل ہے۔