پاکستان اور اقبال کا خواب


کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا ؟

پاکستان اور اقبال کا خواب

اقبال کی آنکھ آج خون کے آنسو رو رہی ہوگی- کیونکہ انہوں نے کہا تھا؛

سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو

ہمیں ناز اس بات پر ہے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے اس کی تعبیرکی- اس کے ساتھ ہی خیال آتا ہے کہ کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور کیا اگران کاخواب “آج” کا پاکستان ہوتا تو قائد اعظم واقعی اس کی “تعبیر” کیلئے کوشاں ہوتے؟

فرقہ واریت کے جن کو اقبال نے ” ہنگامۂ محشر ” کی وجہ قرار دیا تھا – آج یہی جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے – آج ہم کیوں اپنی قوتیں ، اپنے امکانات اس بوتل کے جن کو بند کرنے کیلئے استعمال کر نہیں پا رہے-

مجھے اقبال کی نظم “صدائے درد” یاد آرہی ہے- یہ نظم اس دور کی تخلیق ہے جب نہ تو پاکستان کا تصور تھا اور شائد اس وقت اقبال نے یہ خواب دیکھا بھی نہ ہو- لیکن آج کے پاکستان میں ،جسکی زمین تشدّد کے نتیجے میں بہنے والے خون سے سرخ ہو رہی ہے، فرقہ واریت کا سانپ ہمیں ڈس رہا ہے، بنیاد پرستی کے نتیجے میں تعصب کی ہوا چل رہی ہے، یہ نظم آج کے پاکستان پر حرف بحرف صادق آتی ہے

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا ، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے

بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

دانۂنم خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے!
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے

Kiya Yeh Wohi Pakistan Hai
?Jiss Ka Khaab Iqbal Nay Daikha Tha


اپنا تبصرہ بھیجیں