جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں


جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں
کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈتا ہوں میں​
مجھے نمک کی کان میں مٹھاس کی تلاش ہے
برہنگی کے شہر میں لباس کی تلاش ہے​
وہ برف باریاں ہوئیں کہ پیاس خود ہی بجھ گئی​
میں ساغروں کو کیا کروں کہ پیاس کی تلاش ہے

​​گرا ہوا ہے ابر، ماہتاب ڈھونڈتا ہوں میں​

جو رک سکے تو روک دو یہ سیل رنگ و نور کا
میری نظر کو چاہیے وہی چراغ دور کا
کھٹک رہی ہے ہر کرن نظر میں خار کی طرح
چھپا دیا ہے تابشوں میں آئینہ شعور کا​

نگاہِ شوق جل اٹھی، حجاب ڈھونڈتا ہوں میں​

یہ دھوپ زرد زرد سی یہ چاندنی دھواں دھواں​
یہ طلعتیں بجھی بجھی، یہ داغ داغ کہکشاں​
یہ سرخ سرخ پھول ہیں کہ زخم ہیں بہار کے
یہ اوس کی پھوار ہے کہ رو رہا آسماں​

دل ونظر کے موتیوں کی آب ڈھونڈتا ہوں میں​

جو مرحلوں میں ساتھ تھے وہ منزلوں پہ چھٹ گئے
جو رات میں لٹے نہ تھے وہ دو پہر میں لٹ گئے
مگن تھا میں کہ پیار کے بہت سے گیت گاؤں گا
زبان گنگ ہوگئی گلے میں گیت گھٹ گئے​

کٹی ہوئی ہیں انگلیاں، رباب ڈھونڈتا ہوں میں​

یہ کتنے پھول ٹوٹ کر بکھر گئے یہ کیا ہوا
یہ کتنے پھول شاخچوں پہ مر گئے یہ کیا ہوا
بڑھی جو تیز روشنی چمک اٹھی روش روش​
مگر لہو کے داغ بھی ابھر گئے یہ کیا ہوا​

انہیں چھپاؤں کس طرح نقاب ڈھونڈتا ہوں میں

(مولانا عامرعثمانی صاحب)

Jinheen Seher Nigal gayi
Wo Khwaab Dhundta Hun Mein


اپنا تبصرہ بھیجیں