میری دنیا تھی آشیانے میں


تُو نے تنکے سمجھ کے پھونک دیا
میری دنیا تھی آشیانے میں

میری دنیا تھی آشیانے میں

پورے گاؤں میں رمضو سے بڑھ کر نشانے باز بھلا کون تھا، ہاتھ میں غلیل تھامے رمضو سارا دن گاوں کی گلیوں میں پھرا کرتا، ہم سب بچے رمضو سے بے انتہا متاثر تھے اور متاثر کیوں نہ ہوتے کہ بعض اوقات رمضو ہم بچوں کو نشانے بازی کا ایسا مظاہرہ کرکے دکھاتا کہ ہم دنوں اس کے ہنر کے گن گاتے،

دوائی کی خالی شیشی کو وہ ایک جگہ رکھتا اور کافی فاصلے سے وہ ایسا نشانہ باندھتا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بوتل چکنا چور ہو جاتی، پھر وہ آنکھیں بند کرتا اور کہتا
” لو بچو اب دیکھو بند آنکھوں کا نشانہ”

اس وقت میں چھوٹا تھا مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح بند آنکھوں سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ، میں سمجھتا تھا کہ دیکھنے کے لیے فقط آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر بہت بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ساری بات دهیان کی ہے.

بعض اوقات رمضو کا نشانہ خطا بھی ہو جاتا تو وہ کہتا کہ یہ میں نے جان بوجھ کر نشانہ درست نہیں باندھا ہم چونکہ رمضو سے متاثر تھے سو کوئی اعتراض نہ کرتے.

رمضو سارے گاوں کی چڑیوں کا دشمن تھا چاہے وہ چوپال کے درخت پر رہنے والی چڑیاں ہوں کہ گاوُں سے تھوڑی دور بیری کے جنگل کی چڑیاں ہوں، وہ بیری کا جنگل کہ جہاں بچے جانے سے ڈرتے تھے کہ مشہور تھا کہ وہاں جن رہتے ہیں، رمضو سے متاثر ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اکیلا بیری کے جنگل میں چلا جاتا اور چڑیوں کا ڈهیر شکار کرلاتا، وہ ہمیں کہتا
” ہاں بھئی بچو چلنا ہے بیری کے جنگل ” اور ہم سرپٹ دوڑ لگاتے کہ کہیں وہ ہمیں زبردستی بیری کے جنگل نہ لے جائے.

وقت یونہی گزرتا رہا اور میں شہر آگیا، اب کی بار میں سالوں بعد گاوں گیا تو بہت سی یادوں کے ساتھ رمضو بھی یاد آگیا میرا خیال تھا کہ وہ اب بھی غلیل ہاتھ میں تھامے یا تو چڑیاں شکار کر رہا ہوگا یا پھر دوائی کی شیشیاں توڑ رہا ہوگا، لیکن گاوں کے چوپال پر جس رمضو سے میری ملاقات ہوئی یہ تو بالکل ہی کوئی اور آدمی تھا
“ہاں بھئی رمضو سناو آجکل کتنی چڑیاں شکار کرتے ہو؟”

“او بس جی اب میں نے شکار سے توبہ کر لی ہے جی، اب بھی کبھی کبھار ان دنوں کے بارے سوچتا ہوں تو نیند اڑ جاتی ہے، ہا ہائے میں کتنا ظالم تھا جی ”
” لیکن ایسا ہوا کیا کہ تم توبہ تائب ہوگئے ”

” او جی ایک بار کیا ہوا کہ ایک درخت کی ٹہنی پر چڑیا بیٹھی تھی میں نے نشانہ باندھا اور پتھر سیدھا جا کے چڑیا کو لگا لیکن وہ زمین پر گرنے کی بجائے اسی ٹہنی کے نیچے بنے اپنے گھونسلے میں جاگری، درخت پر چڑھنا میرے لیے کب مشکل تھا سو جب میں درخت پر اس ٹہنی کے پاس پہنچا تو جی مجھ گناہ گار نے کیا دیکھا کہ چڑیا گھونسلے میں زخمی پڑی ہوئی تھی لیکن گھونسلے میں دو بچے بھی تھے-

محمد جمیل اختر

Tu Nay Tinkay Samjh Kay Phoonk Dia
Meri Duniya Thi Ashyanay Mein


4 تبصرے “میری دنیا تھی آشیانے میں

    1. اس وقت میں چھوٹا تھا مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح بند آنکھوں سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ، میں سمجھتا تھا کہ دیکھنے کے لیے فقط آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر بہت بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ساری بات دهیان کی ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں