پاک فوج کے جوان


سو جاؤ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں

ستمبر ہمیں 1965 کی اس صبح کی یاد دلاتا ہے ہمارے گھٹیا اور کمینے دشمن نےجب ارض خداداد پاکستان پر شب خون مارا اور سارے بین الاقوامی قواعد و جوابط اور اصولوں کو پس پشت ڈال کر سوہنی دھرتی کی سرحدوں پر حملہ کر دیا لیکن جب اس قوم کے بیٹے جواب دینے کیلئے اٹھے تو لاہور جم خانہ کلب میں فتح کی خوشی میں شراب پینے کے خواب ادھورے رہ گئے اور وطن عزیز کی سپاہ غنیم کے راستوں میں سیسہ پلائی دیوار بن گئی ۔صدر پاکستان نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کو ایسا سبق سکھاو کہ اسکی نسلیں کبھی دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی جرات نہ ہو سکے ۔پاکستان کے صدر کے اس خطاب اور وطن عزیز کی سرحدوں پر حملے کی خبر نے پاکستانی قوم کو پہلی بار اسکے صحیح روپ میں دیکھا ۔ ملکہ ترنم نور جہاں کی مترنم آواز نے وہ یادگار ترانے گائے جن میں انکی آواز کے ساتھ ساتھ جذبہ حب الوطنی بھی شامل تھا مزید یہ کہ ہمارے مجاہدوں کے سلگتے ہوئے جذبوں پر تیل کا کام کرتے ہوئے انہیں شعلہ جوالا بنا دیتے تھے عام لوگ گاﺅں کے راستوں اور شہیدوں کی سڑک پر دو رویہ کھڑے ہو کر ہر فوجی گاڑی پر پھول نچھاور کرتے ہوئے زندہ بادہ کے نعروں سے ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ قوم کے دلوں میں اپنی مسلح افواج کیلئے عقیدت کے چشمے ابل رہے تھے اور دوسری طرف ہمارے فوجی جوان بھی کہہ رہے تھے۔

سو جاﺅ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں

اور واقعی سوہنی دھرتی کے یہ بیٹے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس وقت ہماری سرحدوں پر پہرہ دے رہے ہوتے ہیں جبکہ ہم آرام دہ بستروں میں گہری نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ان کے لہو نے ہماری سرحدوں پر وہ دیواریں کھڑی کر دی ہیں جنہیں پھلانگ کر بھی دشمن کو ہماری سوہنی دھرتی کی طرف نظر اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی۔ اس معرکے میں پاکستانی افواج نے جرات و ہمت کے وہ کارنامے رقم کئے کہ وہ جنگوں کی عالمی تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔ ہماری بحریہ نے اپنے سے کئی گنا بڑی بحریہ کا ناطقہ بند کر دیا اور انہیں کراچی کی زیارت نصیب نہ ہو سکی ۔ ہماری بری افواج نے رن کچھ اور کھیم کرن پر قبضہ کر کے بھارتی سورماﺅں کا غرور خاک میں ملا دیا اور چونڈہ کے میدان میں ٹینکوں کے بہت بڑے معرکے میں اپنے سے کہیں بڑے دشمن کے آگے سینوں پر بم باندھ کر اس کے ٹینکوں کو روئی کے گالوں کی طرح دھنک کر رکھ دیا اس قوم کی ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق اپنا کردار ادا کیا اور پنجابی کے عظیم شاعر ڈاکٹر رشید انور نے لکھا!

تینوں لِکھاں سہاگن تے قلم سَنگے
بیوہ لِکھاں تے شرم شہادتاں دی
تیری اَکھ دے سہکدے اتھرو توں
سِکھی عرشاں جاچ عبادتاں دی

آج بھی پاکستان حالت جنگ میں ہے لیکن اس دفعہ دشمن کھل کر حملہ آور نہیں ہوا بلکہ اس کے گماشتے پاکستان کی سرحدوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی، بھتہ خوری، سرکاری املاک پر قبضہ، پاکستانی خزانے کی بیرونی ممالک کو منتقلی، بد عنوانی کا جھنڈا اٹھانے والے آج پھر پاکستانی افواج کو للکار رہے ہیں۔ ہمارے دشمن وطن سے دور بیٹھ کر وطن کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں لیکن جب تک یہ خاکی وردی والے مجاہد زندہ ہیں کسی مائی کے لعل کی جرات نہیں ہو سکتی کہ ہماری دھرتی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے۔ آئیں آج پھر وطن بچانے کیلئے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور دوستوں کے بھیس میں ملک کے ٹکڑے کرنے والوں کے بھیانک چہروں کو پہچانیں۔ انشاءاللہ اس بار پھر فتح پاکستان کی ہو گی۔

So Jao Azeezo Kay Faisloon Pay Har Ik Simat
Hum Loog Abhi Zinda-o-Bedaar Kharay Hein


اپنا تبصرہ بھیجیں