اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جا گیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
آج مسلمان اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں داخلے دلوانے کے دلدادہ ہیں جہاں پر تعلیم ایک فتنہ سے کم نہیں ہے ، یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو بولنا تو سکھا یا جاتاہے لیکن یہ نہیں سکھا یا جاتاکہ کب بولنا ہے ، کیسے بولنا اور کتنا بولنا ہے ، یہی چیز مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے اداروں میں سکھائی جاتی ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں- قوم کو صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بااخلاق نوجوانوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے والے ہوں بلکہ قوم و ملت کا جذبہ بھی رکھنے والے ہوں ۔تعلیم سے زیادہ ہمارا رویہ اہم ہوتاہے کیونکہ بعض اوقات ہماری تعلیم ناکام ہوجاتی ہے اور رویہ ہی معاملات سدھارتاہے اور یہ رویہ اس وقت تبدیل ہوتاہے جب ہم اپنی نسلوں کو ایسے تعلیمی ماحول میں تعلیم دیں جہاں پر علم کے ساتھ ساتھ عمل اور اخلاقیات کی تعلیم ملتی ہے ۔
ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ جن اعلیٰ عمارتوں میں بنائے گئے اسکول و کالجس ہیں وہاں پر کیا ہمارے بچے حقیقی علم سے آشنا ہورہے ہیں ، ایسے بہت کم لوگ ہیں جو تعلیم کو عمل اور اخلاقیات سے جوڑ کر دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نسلیں تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن بااخلاق نہیں ہیں ۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے بچے جنہیں ہم اچھی تعلیم کے نام پر ایسے اداروں میں داخلہ دلوار ہے ہیں وہ آگے چل کر یقینا بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں ، حالانکہ وہ اچھی انگریزی بول لیتے ہیں ، مگر ان میں اخلاقیات کا فقدان ہوتاہے۔ مسلمانوں کو خود انکے اپنے تعلیمی اداروں پر یقین نہیں ہے اور غیروں کو انکے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انکے بچے اگر مسلمانوں کے درمیان ہی رہ کر تعلیم حاصل کرینگے تو وہ مستقبل میں کامیاب نہیں ہونگے ، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچاہے کہ ہمارا مستقبل صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخر ت بھی ہے اور آخر ت میں یہ پوچھا جاتاہے ہے کہ تم نے دنیا میں اپنے پڑوسیوں کا کتنا حق ادا کیا ، ماں باپ کے فرمانبردار کتنے تھے ، کھانا بیٹھ کر کھانے کی سنتیں ادا کی تھیں یا نہیں، نا حق قتل تو نہیں کیا، دیکھا جائے تو موجودہ دور میں انسانی جان کی قیمت ساحل پر پڑے ریت کی زرّوں سے بھی ارزاں ہوچکی ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انسانی جان کی قدر و قیمت مچھر اور مکھی سے بھی کم تر ہوگئی اور یہ بات باعث ندامت ہے کہ ہم میں سے کسی کو احساس زیاں تک نہیں۔
ظالم قاتلوں کا دل محبت، ہم دردی، انکساری اور انسان دوستی سے خالی ہوچکا ہے۔ کیا انسانی خون کے پیاسوں نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے وہ احکامات نہیں پڑھے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بچوں کو اور اپنے آپ کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ہوتو اسکے لئے ہمیں مسلم زیر انتظامیہ تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنا ہوگا اور یہی ہمارے مستقبل کی کامیابی کی نشانی ہیں ۔ کیا برائی ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں جس کی وجہ سے ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں ، جب تک ہم اپنے تعلیمی اداروں کے فروغ کے لئے خود اپنے بچوں کا داخلہ نہیں دلواتے اس وقت تک ہمارے یہ تعلیمی آگے نہیں آئینگے اور تعلیم کا میعار تب بدلے گا جب ہم خود بدلیں گے ۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے اسکولوں میں داخلہ دلوائیں لیکن مسلم انتظامیہ کے اداروں کو ترجیح دیں تاکہ ہمارے بچوں کی دنیا و آخرت سنور جائے ۔
’’ اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ ۔ املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ ‘‘۔
ماشاءاللہ بہت اچھی نصیحت ہے
اللہ توفیقات سے نوازے آمین
فتنہ کے بارے میں جو انداز اشعار کے زریعے سمجھایا گیا ہے واقع بہت ہی عمدہ ہے اور بہت پسند آیا۔
یہ کسی بھی شاعر کا کلام ایسا نہیں ہو سکتا ۔
١ : قوافی تعلیم , جاگیر ، نہیں ہو سکتا
٢: قافیہ درست نہیں مگر دو مصرے وزن میں ہیں
٣: تیسرا اور آخیر کا مصرعہ بالکل ہی خارج البحر ہے
ابھی Dawatnews میں لکھا کہ یہ سرفراز بزمی کا ہے
جی! سمجھانا ضروری ہے تا کہ یہ باتیں معاشرہ میں ایک دفعہ پھر سے زندہ کی جا یئں جو تقریباً وفات پا چکی ہیں-لیکن ایک اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہم ان باتوں کو صرف سنتے اور سناتے ہیں بلکہ چاہئیے تو یہ تھا کہ ان باتوں کا پہلا اطلاق ہم اپنی ذات پر کرتے پھر کہتے اور لوگ ہمارے قول و فعل سے متاثر ہو کر اس پر عمل پیرا ہوتے-
شکریہ
واۓ ناکامی۔۔ متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رھا