جس اُمت کو
قبرستان سے گزرتے وقت
مُردہ کو سلام کرنے کا حکم ہے
وہ اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ
زندہ کو بھی بغیر مطلب سلام نہیں کرتے
سلام کرنا فرمان خداوندی ہے
قرآن کریم میں ہے :﴿وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا﴾
ترجمہ:اور جب تم کو کوئی دعا(سلام )دے وے ،تو تم بھی دعا دو، اس سے بہتر یا وہی کہوالٹ کر․(سورة النساء:86)
اسی طرح ایک اور آیت ہے:﴿یَا یُّھَاالَّذِیْن اٰمَنُوا لَا تَدْ خُلُوا بُیُوْتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتیّٰ تَسْتَاِنسُوْا وَتُسَلِمُوْا عَلٰی أَھْلِھَا ﴾․
اے ایمان والو !اپنے گھروں کے علاوہ کسی گھر میں داخل نہ ہو، جب تک کہ تم اجازت نہ لے لو اور گھر کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو۔(سورة النور :27)
اور رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا ( کہ ) اسلام کی کونسی چیز (میں دوسروں سے زیادہ ) خیر ہے ۔ ( آپ ) نے فرمایا: [ تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ] ( البخاري : 12 ، و مسلم : 39 )
یعنی : کھانا کھلانا اور اس کو سلام کہنا جس کو تم جانتے ہو اور جس کو تم نہیں جانتے ۔
اور فرمایا ( رسول اللہ ) ﷺ نے [ خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ و طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ مِنَ المَلاَئِكَةِ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَزَادُوهُ : وَرَحْمَةُ اللَّهِ ] ( البخاري : 3326 ، و مسلم : ( 2841
یعنی : اللہ تعالیٰ نے آدم ( علیہ السلام ) کو پیدا کیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا ۔ پس جب اس کو پیدا کیا ( تو ) فرمایا : جا اور ان فرشتوں پر سلام کر ، پھر سن لے جو سلام وہ تم کو کریں گے ۔ پس وہ تمہارے اور تمہاری ذریت (نسل) کے لئے سلام( کا طریقہ) ہوگی ۔ تو اس نے کہا: ‘‘ السلام علیکم ’’ ، انہوں نے ( جوابا ) کہا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ پس انہوں نے ‘‘ و رحمۃ اللہ ’’ کا اضافہ کیا ۔
سلام کو پھیلانے کے فائدوں میں سے آپس میں محبت کرنا ہے اور یہ ( محبت ) جنت میں داخل ہونے کا ( ایک ) سبب ہے اور لوگوں کے حقوق کی ادائگی ( میں سے ) ہے اور بہترین میل جول( کا ذریعہ )ہے جو آپس میں رکھنا لازم ہے ۔ اور یہ انکساری ہے اور یہ جنتیوں کی سلام ( کا طریقہ بھی ) ہے اور گناہوں کی مغفرت کا سبب ( بھی ) ہے ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ) ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے ، اور چلنے والا بیٹھے ہوئے پر ، اور سوار پیدل چلنے والے پر ، اور کم (افراد ) زیادہ پر ، اور پیدل چلنے والا رکے ہوئے پر ، اور لوگوں کے پاس آتے وقت اور ان سے رخصت ہوتے وقت ، البتہ مسجد میں داخل ہونے پر دو رکعت ( نماز ) تحیۃ المسجد سے شروع کیا جائے ۔ پھر ان ( لوگوں )کے پاس آئیں اور سلام کریں، کیونکہ تحیۃ المسجد اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور یہ دوسروں (کے حق ) پر مقدم ہے ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ جب کوئی اپنے گھر والوں کے پاس رات کو داخل ہو تو ان پر سلام کہے، سوئے ہوئے کو نہ جگائے اور( صرف ) بیداروں کو کہے ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ اس سے کلام کی ابتداء کی جائے ، اور جب کسی نے کسی غیر حاضر پر سلام پہنچانے کی وصیت کی تو اس کو ( یعنی سلام کو ) اس تک پہنچائے اور جس پر سلام بھیجی گئی وہ واپس اس پر جواب دے: “علیک و علیہ السلام ” ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے کہ جو بھی اس کو ( مسلمان کو ) ملے اس سے سلام کی پہل کرے اور جب کوئی اس کو سلام کرے تو یہ اسی طرح واپس جواب دے یا اس سے بہتر سے جواب دے ۔
اس کے آداب میں سے ( یہ بھی ) ہے ( کہ ) سلام کرنے والے کو قضائے حاجت کرتے ہوئے جواب نہ دے ۔
اہل کتاب کو سلام میں پہل نہ کی جائے ، انہیں صرف ” و علیکم” سے ان کا جواب دیا جائے۔ البتہ جب بھی ایسی مجلس ہو جس میں مسلمان اور کفار کا اختلاط ہو تو سلام کی جائے ،اور جب کافروں کو خط لکھا جائے تو ( مکتوب پر ) اس طرح سلام ( تحریر ) کی جائے ، ” السلام علی من اتبع الھدی ” یعنی : سلام اس پر ہو جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ جب کہ عورتیں جو غیر محارم ہوں تو ان پر سلام نہ کی جائے سوائے بوڑھیوں کے ۔
سلام کی ابتداء کرنے والا ، جواب دینے والے سے بہتر ہے ، اور عبد اللہ بن عمر ( رضی اللہ عنہ ) بازارمیں اسی لئے جاتے تھے ( تاکہ ) لوگوں کو سلام کرے۔ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، اس کو ترک کرنے والا ( یعنی جواب نہ دینے والا ) گناہ کا ارتکاب کرتا ہے البتہ اس میں ( یعنی سلام میں ) پہل کرنا سنت ہے ۔
گھر والوں کے پاس داخل ہوتے اور نکلتے ( وقت ) سلام کرنا سنت میں سے ہے اور جب لوگ زیادہ ہوں تو تین مرتبہ سلام کرنا ، یہاں تک کہ سب تک ( آواز ) پہنچ جائے ، اور جماعت کی طرف سے ایک ہی شخص سلام کرنے اور جواب دینے کے لئے کافی ہے ۔ جب مکینوں سے خالی گھر میں داخل ہو ( تو )یہ کہنا چاہیے: ” السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین ” یعنی : ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو ۔
بچوں کو ، فقیروں اور مسکینوں کو سلام کہنا سنت ہے اور بغیر جھکنے کے یا گلے ملنے کے یا بوسہ دینے کے مصافحہ کرنا سنت ہے ۔
سلام کرتے وقت یا جواب دیتے ہوئے خندہ پیشانی رکھنا مستحب ہے ۔ سوئے ہوئےپر اور نماز پڑھنے والے پر ، وضوء کرنے والے پر ، تلاوت کرنے والے پر اور ذکر و دعا میں مشغول ( آدمی ) پر ، اور اذان دینے والے پر (دوران اذان) اور خطبہ دینے والے پر (دوران خطبہ) ، اور استاد پر ( دوران درس ) سلام نہ کیا جائے جب وہ اپنا کام انجام دے رہے ہوں، تاکہ ان کی عبادت میں خلل نہ پڑے ۔
یقینا اللہ تعالی نے نبی ( ﷺ ) پر سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے ، پس ( اللہ )سبحانہ ( و تعالی ) نے فرمایا : [ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ] ( الأحزاب : 56 )
یعنی : یقینا اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی ( ﷺ ) پر رحمت بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو ! اس پر ( یعنی نبی ﷺ پر) درود و سلام بھیجو ۔
اے اللہ ! رحمت اور سلام بھیج ہمارے نبی محمد( ﷺ ) پر اور اس کی آل و اصحاب پر ( آمین ) ۔