لوگ دلوں میں نفرتیں لے کر
کس قدر سادگی سے ملتے ہیں
لوگ دلوں میں نفرتیں لے کر کس قدر سادگی سے ملتے ہیں- اس طرز عمل کو منافقت کہتے ہیں- جب کوئی انسان منافق ہوجائے تو اُس کے لیے دن کو رات کہنا بڑی بات نہیں کیوں کہ منافق کے لیے اگر کوئی شے اہمیت رکھتی ہے تو وہ صرف اپنے ذات کی نشوونما ہے۔ خوف، لالچ اور خوشامد منافقت کی عکاسی کرتے ہیں۔منافق وہ انسان ہوتا ہےجو دل میں سوچتاکچھ اور ہے مگرجب بات کرتا ہے تو محفل یا سامع کے موڈ کے موافق ۔یعنی اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔
انسان اور منافقت کا رشتہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے لیکن آج کل یہ اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر کسی کی زبان اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو جملے آپ اپنے لئے سامنے والے کے منہ سے سُن رہے ہیں آیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہیں یا ان کو منافقت لپیٹ کر آپ تک پہنچایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں میں منافقت نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر رکھی ہیں کہ اس کے بغیر ان کا کسی سے بات کرنا ایسا ہے کہ”آبیل مجھے مار”۔ بندہ جب منافقت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتا ہے تو اُسے ہر قدم پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔
کہنے کو تو ہماری زندگی میں بہت سے دوست ہوتے ہیں لیکن کچھ واقعی دوست ہوتے ہیں اور کچھ ضرورت کے تحت بن جاتے ہیں۔لیکن اگر اس رشتے کی بنیاد کوئی غرض ہو تو وہ تعلق مطلب کے سوا کچھ نہیں ہوگا- دلوں میں قدورتیں ہوتی ہیں لیکن منہ پر وہی میٹھی مسکان سجائے ملتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مطلب کے لئے آپ سے دوستی تو کر لیتے ہیں لیکن دل کو دوستی پر آمادہ نہیں کر پاتے۔ وقت بہ وقت ضرورت کے تحت آپ کو استعمال کرتے ہیں لیکن جب کبھی آپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بڑی آسانی سے کوئی بہانہ بنا کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کا اصلی چہرہ آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
مرحلہ دشوار آیا تو ظرف سب ہی کے کھُل گئے
لوگ جیسے دِکھ رہے تھے، ایک بھی ویسا نہ تھا