پھر یوںہوا کہ جب بھی ضرورت پڑی مجھے
ہر شخص اتفاق سے مجبور ہو گیا
ہر دوسرا شخص خوش مزاجی اور اپنائیت سے ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یا تو وہ فطرتاً واقعی اچھا انسان ہوتا ہے یا پھر اپنے فائدے کے لیے مخصوص لوگوں سے خوش خلقی کا مظاہر کرتا ہے۔
ایسے لوگ اپنے مطلب کے وقت آپ سے نہایت میٹھے لہجے میں بات کریں گے جبکہ مطلب نکل جانے کے بعد نہ صرف آپ کو بری طرح نظر انداز کردیں گے بلکہ آپ کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
انسان کو زندگی گزارنے کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ رشتوں اور معاشرتی تعلقات کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور ان رشتوں کو کیسے نبھانا ہے یہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ان رشتوں کو پورے خلوص دل سے نبھاتے ہیں اور کچھ لوگ صرف ضرورت کے تحت اور منافقت کے ساتھ۔
انسان اور منافقت کا رشتہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے لیکن آج کل یہ اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر کسی کی زبان اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو جملے آپ اپنے لئے سامنے والے کے منہ سے سُن رہے ہیں آیا وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہیں یا ان کو منافقت کے شیرے میں لپیٹ کر آپ تک پہنچایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں میں منافقت نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر رکھی ہیں کہ اس کے بغیر ان کا کسی سے بات کرنا ایسا ہے کہ”آبیل مجھے مار”۔ بندہ جب منافقت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتا ہے تو اُسے ہر قدم پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ منافقت آج کے دور کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے۔ اس کے بغیر آپ کا دفتری ماحول تو کیا دوستوں کی بیٹھک میں بھی رہنا دشوار ہو جائے گا۔
کہنے کو تو ہماری زندگی میں بہت سے دوست ہوتے ہیں لیکن کچھ واقعی دوست ہوتے ہیں اور کچھ ضرورت کے تحت بنا لئے جاتے ہیں۔ جب دوستی سچی ہو تو دوست آپس میں ایک دوسرے کو کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اور سامنے والا بھی بھرپور بدلا لے کر ایک موٹی سی گالی دے گا اور پھر سب کی ہنسی ایک ساتھ گونجتی ہوئی سُنائی دے گی۔
لیکن اگر اس رشتے کی بنیاد کوئی غرض ہو تو آپ اپنے اُس مطلبی دوست کو کچھ کہو تو وہ دل میں بھلے آپ کو موٹی موٹی گالیوں سے نوازے، اگلے کتنے ہی دن آپ سے جل کُڑھ کر گزارے لیکن منہ پر وہی میٹھی مسکان سجا کر آپ سے ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مطلب کے لئے آپ سے دوستی تو کر لیتے ہیں لیکن دل کو دوستی پر آمادہ نہیں کر پاتے۔ وقت بہ وقت ضرورت کے تحت آپ کو استعمال کرتے ہیں لیکن جب کبھی آپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بڑی آسانی سے کوئی بہانہ بنا کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کا اصلی چہرہ آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
مرحلہ دشوار آیا تو ظرف سب ہی کے کھُل گئے
لوگ جیسے دِکھ رہے تھے، ایک بھی ویسا نہ تھا!
خیر ضروری نہیں کہ ہر دوست ہی ایسا ہو۔ دنیا میں جہاں دوغلے لوگوں کی بھرمار ہے وہیں ایسے لوگ بھی خوش قسمتی سے پائے جاتے ہیں جو چاہ کر بھی منافقت نہیں کر پاتے اور ان کی صاف گوئی ان کی خصوصیت ہونے کے باوجود اُن کی دشمن بن جاتی ہے اور اُن کا حال ایسا ہو جاتا ہے کہ بقول امجد اسلام امجد:
ممکن نہیں مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا ،تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں!
ایسے لوگوں کی دوستی ہر غرض سے پاک اور حقیقت ہوتی ہے جو ہر کسی کو دوست نہیں بناتے بلکہ اُنہیں دوستی کا شرف بخشتے ہیں جن سے دل مل جائے۔ بقول شاعر:
جو دل کو اچھا لگتا ہے، اُسی کو دوست کہتا ہوں
منافق بن کے رشتوں کی سیاست میں نہیں کرتا!
جب بات ہو دفتری ماحول کی تو یہ منافقت وہاں دفتری سیاست کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہر کوئی آپ سے اتنے اچھے انداز میں مل رہا ہوتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کس کے دل میں کیا ہے۔ کون واقعی آپ کا ساتھی ہے اور کون بڑے ماہرانہ انداز میں آپ کی کاٹ میں لگا ہوا ہے۔ کون آپ کے کام کو واقعی سراہ رہا ہے اور کون آپ کی فائل پر اپنا نام لکھ کر باس کی داد و تحسین وصول کر رہا ہے۔ اور جب تک آپ کو پتا چلتا ہے کہ اصل کھیل کیا تھا تب تک چڑیا کھیت چُک جاتی ہے یعنی آپ کا پتّہ صاف ہو چکا ہوتا ہے اور آپ صرف یہی کہتے رہ جاتے ہیں بقول شاعر:
جتا جتا کر محبت، دکھا دکھا کر خلوص
بڑے فریب سے لوٹا ہے دوستوں نے مجھے!!
مہوش