تسبیح کہتی ہے، فقط مجھ کو ہی نہیں
تھوڑا خود کو بھی پھیر
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبالؔ
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں
طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب
یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں
نہ اس میں عصرِ رواں کی حیاء سے بیزاری
نہ اس میں عہدِ کہن کے فسانہ و افسوں
حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی
یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسمِ افلاطوں
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال
عجم کا حسن طبیعت، عرب کا سوزِ دروں
٭ آ میں تجھے بتاؤں کہ مسلمان کی زندگی کیا ہے؟ اس کی زندگی کے دو بڑے جوہر ہیں۔ ایک عقل اور دوسرا عشق۔ اور مسلمان ان دونوں میں درجہ کمال پہ ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں دونوں چیزیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔نہایت اندیشہ سے مراد عقل کی بلندی اور رفعت ہے۔
٭مسلمان سورج کی طرح زندگی بسر کرتا ہے جو ایک جگہ ڈوبتا ہے تو دوسری طرف سے طلوع ہو جاتا ہے۔ مسلمان ایک بے مثل شخص ہے جو وقت اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے مگر اسلام کو تھامے رکھتا ہے اور اپنے گردوپیش کے مطابق پیغامِ حق لے کے کھڑا رہتا ہے۔
٭ مسلمان تہذیبِ نوی کی طرح انسانیت کے بنیادی جوہر حیاء سے بیزار نہیں ہوتا بلکہ اس کے نزدیک حیاء ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ مسلمان اپنی زندگی میں پرانی کہانیوں یا جادو منتر پہ بھی یقین نہیں رکھتا۔ وہ صرف توحید پہ یقین رکھتا ہے۔ جبکہ نئے زمانے میں حیاء سے بیزاری اور جادو منتر کے سہارے زندگی گزاری جا رہی ہے۔