افسوس!
ہمارے معاشرے میں
حُسن کا معیار گورا رنگ
اور عقل کا معیار انگریزی زبان ہے
حُسن کا معیار
حُسن کیا چیز ہے؟ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو خوبصورت نظر نہ آنا چاہتا ہو۔مرد ہو یا عورت ہم سب ہی خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیںاور ہر عورت سب سے پہلے خوبصورت اور منفرد نظر آنا چاہتی ہے۔کیا صرف کتابی چہرہ ،غزالی آنکھیں ،بے داغ سرخ و سفید رنگت ہی پر اثر محسور کن شخصیات کے ضامن ہیں ؟کیا حُسن نظر آنے کے لیے لمبے لمبے چمکیلے بال ،سنہری رنگت ،نازک اور چھرہرا بدن ہی ضروری ہے ؟
نہیں ۔۔۔۔صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے اصل خوبصورتی تو نیک جذبات سے لبریز دل کی ہوتی ہے مثبت سوچوں سے بھرپور دماغ کی اپنے رب کے حضور صبر اور تشکر سے بھرپور جسم کی ،جو چہرے سے خود بخود چھلک اٹھتے ہیں چہرے اور جسم کا ہر لحاظ سے مکمل ہونا ہی حُسن نہیں ہے ۔کسی بھی انسان کے مثبت جذبات و احساسات اور رویہ اس کی شخصیت میں کشش اور جازبیت پیدا کردیتے ہیں- چہرہ انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہونے کے ساتھ ہی اس کے جذبات و احساسات اور دلی کیفیات کا عکاس ہوتا ہے- صبر، حوصلہ،ہمت ،اعتماد اور یقین نہ صرف اللہ کی ذات پر بلکہ خود اپنی ذات پر بھی نہایت ضروری ہے یہ اعتماد ہی ہے جو ہماری شخصیات کو چار چاند لگا تا ہے اور دوسروں سے نمایاں کرتا ہے ۔
جو غیر ضروری طور پر بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں جھوٹ اور بناوٹ روح میں کثافت پیدا کرتے ہیں، یہ چہروں سے معصومیت چھین لیتے ہیں ۔پہلے زمانے کے زیادہ تر لوگ اس قدر بناوٹی اور جھوٹے نہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چہرے پر سادگی اور معصومیت ہوا کرتی تھی۔آپ بھی سادگی کو اپنایئے اور سچ بولیئے سادگی بہت بڑی خوبی ہے چاہے وہ رہن سہن میں ہویا بات چیت میں ،سادگی کو اپنا شعار بنالیں کہ سادگی شخصیت کو اور پرکشش بناتی ہے اور دیکھنے والے آپ کی طرف محض سادگی کی وجہ سے متوجہ ہوسکتے ہیں- ایک ایسا دل جس میں پیار ہو ،سچائی اور نرمی ہو ،ہمدردی کے جذبات ہوں ،لوگوں کے لیے بھلائی ہو،دراصل حسن و خوبصورتی کا دوسرا نام ہے ۔
عقل کا معیار
اسی طرح عقل کا معیار انگریزی بولنا نہیں ہےبلکہ اچھا اخلاق، اچھی گفتگو ہے- آج اکثر و بیشتر مسلمانوں میں خوش خلقی، خندہ روئی، کشادہ پیشانی اور فراخ دلی جیسی عمدہ صفات ناپیدہوتی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت بتلائی ہے-
فارسی کے نامور شاعر اور عظیم مصلح شیخ فریدالدین عطّار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اے برادر گر خرد داری تمام
نرم وشیریں گوئی بامردم کلام
ہرکہ باشدتلخ گوی وترش روے
دوستاں ازوے بگردانندروے
”اے پیارے بھائی! اگر تم کامل عقل رکھتے ہو تو لوگوں سے نرم اور شیریں گفتگو کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص ترش رو اور سخت بات کہنے کا عادی ہو تو دوست بھی اس سے دور بھاگ جاتے ہیں“۔