سنبھل کر بولیئے
الفاظ دل جیت بھی لیتے ہیں
اور دل چیر بھی دیتے ہیں
گفتگو انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ الفاظ میں انسان کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ گفتگو انسان کے احساسات و جذبات کا زبان سے اظہار کرنے کا نام ہے۔ بہترین الفاظ کا چنائو ہی انسان کو عزت و وقار کے بلند مرتبے پر بٹھا دیتا ہے اور نامناسب الفاظ انسان کو بلند ایوان میں بھی کم تر اور کم حیثیت بنا دیتے ہیں۔ انسانی کردار کی مانند الفاظ و محاورات بھی عظمت، تمکنت اور وقار کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا بے جا اور نا مناسب استعمال ان کے کردار کو ماند بھی کر سکتا ہے”۔
انسان کے بہترین کردار کے لیے جہاں اس کی ظاہری شخصیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے وہیں اُس کے الفاظ بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ایک پُر وجیہہ انسان غیر معیاری گفتگو کر رہا ہو تو اُس کی تمام شخصیت ماند پڑ جاتی ہے اور لوگ اُس سے کنارا کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو رہتی دنیا تک کے لیے تاریخ کے اوراق میں اَمر ہو جاتے ہیں۔
ہر انسان اپنی گفتگو اور تحریر میں اپنے مافی الضمیر میں موجود خیالات کو الفاظ کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ ہر انسان کے پاس اچھے برے تمام الفاظ کا ذخیرہ ہوتاہے لیکن اُن کا مناسب استعمال اسے عقل مندی کے درجوں پر پہنچاتاہے۔ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے ادا ہونے والا لفظ کبھی واپس نہیں ہو سکتے۔پیرزادہ محمد ابراہیم شاہ لکھتے ہیں
”لفظ ہماری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لفظوں کے بغیر انسانی فکر کا اظہار ممکن نہیں”۔
الفاظ کی قدروقیمت انسانی شخصیت کے برابر ہے۔ انسانی شخصیت کو اُس کے ذخیرۂ الفاظ میں تو لا جاسکتا ہے الفاظ کا دارومدار لہجوں پر بھی مشتمل ہوتاہے۔ اکثر الفاظ اپنے لہجے کی بنا پر مفہوم ادا کرتے ہیں۔ عام سے لفظ کو بھی اگر سخت لہجے اور غلط موقع پر ادا کیا جائے تو وہ لفظ اپنے مفہوم و معنی بدل لیتاہے۔ لفظوں سے لگے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہے۔ جھوٹ اور سچ کو بھی لفظوں کے روپ میں دھار کر بیان کیا جاتا ہے۔ لفظ بذات خود بہت معصوم ہوتے ہیں لیکن بیان کرنے والے کا انداز انھیں خطرناک بنا دیتا ہے۔ اور لفظ ہی انسانی کے اندر کے حُسن کو ظاہر کرتے ہیں۔معیاری الفاظ، سلیقہ مند اور شیرین گفتگو ہی انسانی کردار کے اعلی معیار کی عکاسی کرتا ہے۔