زندگی
ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نا ناری ہے ( علامہ اقبال ) -زندگی امید کا نام ہے زندگی جہد مسلسل کا نا م ہے زندگی محتلف مراحل کا نا م ہے زندگی اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک ایسی نعمت ہے جو ہر انسان کو صرف ایک مرتبہ دی گئی ہے – اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر نائب بنا کر بھیجا ہے ۔ اسی لئے اللہ رب العزت نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ عقل دی کہ وہ اپنے لئے صحیح راستے کا انتخاب کرسکے ۔ زندگی ! زندگی ایک مقصد چاہتی ہے ۔ جینے والے سے وہ چاہتی ہے کہ اسے فضول نہ گزار جائے اگر کوئی انسان اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مثبت سوچ کے ساتھ صراط المستقیم پر چل کر اس مقصد کو حاصل کرے تو وہ شخص وقت کا کامیاب ترین انسان بن جاتاہے ۔ دولت زیادہ کمانے کا مطلب کامیاب زندگی نہیں ہوتا بلکہ جینے کا سلیقہ آنا چاہئے-
درد دل کیا ہے ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کا احساس اور محبت اور یہ محبت اور احساس ہی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے پر آمادہ رکھتا ہے اگر کسی کو کسی سے کوئی غرض نہ ہو تو دنیا میں اس قدر تگ و کرنے کی کیا ضرورت ہے صرف اپنے لئے سامان حیات میسر کرلینا کوئی بڑی بات نہیں یہ کام تو دنیا کی آبی و زمینی مخلوق بھی کر لیتی ہے جانور اور پرندوں سے لیکر حشرات الارض بھی کر لیتے ہیں کہ قدرت نے ہر مخلوق کے لئے زمین پر رزق رکھا ہے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق زمین سے اپنا رزق وصول بھی کرتی ہےیکن انسانی زندگی کا معیار اور مقام اس سے کہیں آگے ہے کہ وہ تمام مخلوقات میں افضل و بر تر ہے انسان کی زندگی محض اشیائے خوردو نوش کے حصول تک محدود نہیں- لیکن انسان کی زندگی اس سے بہت آگے کی منزل ہے اوریہ راستہ آرام و سکون نہیں بلکہ مسلسل سفر بلکہ سفر در سفرکا نام ہے سو انسان ہمہ تن گامزن رہنے والی مخلوق ہے-
اللہ تعالی نے ہر ایک کے زندگی کے پہلو الگ الگ رکھے ہیں ۔ہر ایک کے مقصد الگ الگ ہیں کوئی بھی ہو ، سورج اور چاند ہی کیوں نہ ہوں اپنے اپنے وقت پر ہی چمکتے ہیں ۔ اصل میں ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کو خرچ کر رہے ہیں ۔پر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم وقت خرچ کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کے وقت کو صحیح مقصد کیلئے خرچ کرنا ہے یا پھر ضائع کرنا ہے۔
جو زندگی سانسوں پر چلے اور سانسوں پر ہی ختم ہو تو وہ زندگی نہیں ۔ زندگی وہ ہے جس پر انگنت سانسیں چلیں ۔جو لوگ دوسروں کی خاطر جئیے ان کی اپنی زندگیوں میں بھی کئی مسائل تھے لیکن صابر شاکر رہے ۔
استاد عبدالحفیظ شاکرؔ لکھتے ہیں
کہ ’’ خو د اپنے اندر ڈھونڈ لوگے تو آپ کو زندگی ملے گئی، جب زندگی ملے گی تو اﷲ کی بندگی بھی عطاء ہوگی‘‘واقعتا سچ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ کہیں کچرے میں زندگی لت پت ہے تو کہیں زندگی کسی کوٹھے کی زینت بنی ہوئی ہے۔ کہیں چمن زاغوں کے تصرف میں ہے تو کہیں مغربی تہذیب مشرق کا کفن بن گیا ہے۔ زندگی کو لوٹانا ممکن ہے اور اس کے لیے شرط ایمان ہے۔ جب یہ نہیں تو پھر زندگی میں بے حسی کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں تو زندگی اپنی وقعت اور وقار کھودیتے ہے‘‘۔
عشق مصطفی ﷺ کو زندگی میں یوں بیان کرتے ہیں’’ عشق محمدﷺ میں گزارو زندگی، دوستوں مل کر سنوار و زندگی، بحرمیں سیرت کے ہوکر غوط زن، دہر میں اپنی نکھارو زندگی‘‘ یعنی جو بھی سیرت محمدی ﷺ سے کے دریائے لولوء و مرجان میں غوط زن ہوکر نقوش زندگی پائے گا اسی کی زندگی سنورے گی۔
راستے کھلے ہیں نشانیاں واضح ہیں ضرورت ہے تو صرف دیکھنے والی آنکھ، سوچنے والے دماغ اور چاہنے والے دل کی بصیرت، فہم اور چاہت سے کام لینا انسان کے اپنے اختیار میں ہے جس نے اپنی چاپت کو اپنی فہم و فراست اور بصیرت سے اپنے اختیار میں کر لیا جان لو کہ زندگی کی حقیقت کو پالیا اپنی تلاش و جستجو اور اپنی منزل کا حصول اپنے لئے ممکن بنا لیا-
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب شیطان مردود ہو گیا تو اس نے کہاں کہ اے رب تیری عزت کی قسم تیرے بندوں کو ہمیشہ بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں انکے جسموں میں رہیں گی، اللہ عز و جل نے ارشاد فرمایا مجھے قسم ہے اپنی عزت و جلال کی اور اپنے اعلیٰ مقام کی جب تک وہ مجھ سے توبہ کرتے رہیں گے میں ان کو بخشتا رہوں گا آمین-