حیات


کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی
جلتی رہی حیات بڑی خاموشی کے ساتھ

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی

دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ
ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ

اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ

اپنوں کی چاہتوں نے بھی کیا کیا دیئے فریب
روتے رہے لپٹ کے ہر اک اجنبی کے ساتھ

جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ

تم راستے کی گرد نہ ہو جاؤ تو کہو
دو چار گام چل کے تو دیکھو کسی کے ساتھ

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی
جلتی رہی حیات بڑی خامشی کے ساتھ

اختر امام رضوی

Koyi Dhuwaan Utha Nah Koyi Roshani Hui
Jalti Rahi Hayaat Bari Khamoshi Kay sath


اپنا تبصرہ بھیجیں