مشکلات کا سامنا کرنا زندگی


مشکلات کا سامنا کرنا زندگی اور
اس پر غالب آجانے کا نام کامیابی ہے

مشکلات کا سامنا کرنا زندگی

مشکل کا مطلب ہے کہ انسان کو کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو یا ایسی کوئی صورت حال پیش آ گئی ہو جس کا اسے گمان نہیں تھا یا اس نے اس وقت سوچا نہیں تھا اور نہ ہی تیاری کر رکھی تھی ۔ اور اب جو اچانک مشکل سے واسطہ پڑا ہے تو اس سے مقابلہ نہیں کر پا رہا اور ان حالات میں وہ خود کو اپنی منزل سے دور پاتا ہے ۔ ایسی مشکلات یا مسائل کسی بھی عمر میں کسی کو بھی پیش آ سکتے ہیں۔

انسانی زندگی میں عموماً دوطرح کے حالات کا سامنا ہوتا ہے، کبھی انسان خوشی و مسرت کے خوشگوار لمحات سے دوچارہو تاہے اور کبھی اس پر رنج وغم ، بے چینی اور مایو سی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ زندگی کی ان نازک گھڑیوں میں اسلام مسلمان کو اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے کہ خوشحالی اور فراوانی میں قلب و دماغ کو شکر و احسان سے معمور رکھو اور مصائب و مشکلات میں صبر و استقامت اور ہمت وحوصلہ سے کام لو، او یقین رکھو کہ جب وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے خود ان مصیبتو ں کو دور فر مادیں گے۔ گو یا اسلام مسلمانو ں کو خدا کے سہارے جینے کی تعلیم دیتا ہے وہ مسلمانو ں کو مشکل سے مشکل اوقات میں بھی ناامیدبناکر بے سہارا نہیں چھوڑ تا۔’’اے میرے وہ بندے ! جنہو ں نے اپنی جانو ں پرآپ ظلم کیاہے تم خداکی رحمت سے نا امید مت بن۔

قر آن نے ایسے لوگو ں کی تعریف کی ہے جو ہر قسم کی تکلیف اٹھاکر اپنی جگہ ثابت قدم رہتے ہیں۔ ’’جو مصیبت پیش آئے اس کو برداشت کر و یہ بڑی پختہ باتو ں میں سب سے نازک موقع وہ آتاہے ، جب وہ کسی بڑی کامیابی یا ناکامی سے دوچار ہو تی ہے، اس وقت نفس پر قابورکھنا، اور ضبط سے کام لینا مشکل ہو تا ہے، مگر یہی ضبط نفس کا اصلی موقع ہو تا ہے اور اسی سے اشخاص اور قو مو ں میں سنجید گی، متانت ، وقانت ، وقار اور کیر یکٹر کی مضبو طی پیدا ہو تی ہے۔ ہر حال میں اللہ سب سے بڑی پہنچان ہے، اس لئے کہ دنیا یں مصیبتیں گناہو ں کیلئے کفارہ اور آخر ت میں نجات کا سبب ہو تی ہے۔ ان کیلئے دینوی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں انسانو ں پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ خود ان کی ناعاقبت اندیشی اور خدانا شنا سی کے نتیجہ میں آتی ہے۔ تم پر جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھو ں کیلئے ہوئے اعمال وافعال کے سبب پہنچتی ہے۔

ہم مصنوعی زندگی ، تکلیفات اور تعیشات کے کسی قدر عادی ہو چکے ہیں سادہ اورفطری زندگی گزار نا کتنا دشوار ہو گیاہے زندگی اور زندگی کے مطالبات نے الجھا کر رکھ دیاہے ، ہروقت خواہش نفس کی تسکین کیلئے پریشان اور پر اگندہ رہتے ہیں ، لیکن حقیقی سکون اور اطمینان قلب میسر نہیں آتا، قر آن پاک میں ارشاد ربانی ہے ۔جو اپنے پرور دگار کے سامنے کھڑا ہو نے سے ڈرا اور اپنے نفس کو غلط خواہش سے بچا لیا وہ جنت میں آرام پائے گا ایک صاحب عزم مسلمان کافر ض ہے کہ وہ خواہشات نفس کو بے لگام نہ چھوڑے تاکہ پر فریب نظام زندگی سے محفوظ رہ سکے ایک شاعر نے زندگی کی حقیقت کو یوں بیان کیاہے وہی زندہ رہنے کا فن جانتے ہیں ۔

انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو طر ح طر ح کی اذیتیں پہنچائی گئیں خود جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی مشکلات اور پریشانیو ں میں گھری ہوئی تھی ، ہر طرف سے عداوت و دشمنی کے مظاہرے ہو رہے تھے اس وقت تسلی کا یہ پیغام آیاکہ اضطرا ب اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں، خدا آپ کانگہبان ہے اور

اصبرلحکم ربک فانک باعسیتا ( سورہ طور)
اپنے پرو ور دگار کے فیصلہ پر ثابت قدم رہئے

کیوں کہ آپ ہماری نگاہو ں کے سامنے ہیں، صحابی رسول حضرت خنیف کوپھانسی کے تختہ پر چڑھایاگیا، حضرت بلالؓ کو عرب کے ریگستانی علاقو ں میں گھسیٹا گیا ، مگر ان نفوس قدسیہ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔ پھر دنیا نے دیکھ لیاکہ عرب کی سرکش قو م ان کے قدمو ں پر گر نے لگی ان کی زندگی میں انقلاب بر پا ہوگیا۔ انسانیت کی تاریخ بتلا تی ہے کہ کامیابی اور قر بت خداوندی ، ابتلاء وآزمائش کے بعدہی حاصل ہوتی ہے ، جو لو گ انسانی زندگی سے بے زارہو کر مو ت کی تمنا کر تے ہیں در حقیقت اپنی ناعاقبت اندیشی اور کو تاہ چشمی کا ثبوت پیش کرتے ہیں، یہ جان اللہ کی امانت ہے اور اہم اس کے اتلاف تو در کنار اس کے کسی بے جان استعمال کے بھی مجا ز نہیں ۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانو ں کو مشکلات راہ میں ثبات قدمی کی توفیق عطا کرے اور ان کی دینی و ملی مسائل کو آسان فر مائے ۔

Mushkilat Ka Samna Krna Zindagi Aur
Is Per Gaalib Aa Janay Ka Naam Kamyabi Hy


اپنا تبصرہ بھیجیں