انسان بھول جاتا ہے


انسان عمر کی اونچائیاں چڑھتا ہوا بھول جاتا ہے
کہ اصل میں وہ اتر رہا ہے زینہ زینہ دو گز زمین میں

مولانا روم سے کسی نے پوچھا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟
مولانا روم نے فرمایا،دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل کی طرف جاتا ہے اس نے دیکھا کہ اس کے پیچھے شیر آرہا ہے وہ بھاگا جب تھک گیا تو دیکھا کہ سامنے ایک گڑھا ہے اس نے چاہا کہ گڑھے میں چھلانگ لگا کر جان بچائے لیکن گڑھے میں ایک خوفناک سانپ نظر آیا اب آگے سانپ اور پیچھے شیرکا خوف اتنے میں ایک درخت کی شاخ نظر آئی وہ درخت پر چڑھ گیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ درخت کی جڑ کو کالا چوہا کاٹ رہا ہے وہ بہت خائف ہوا کہ تھوڑی دیر میں درخت کی جڑ کٹے گی پھر گر پڑوں گا پھر شیرکا لقمہ بننے میں دیر نہیں۔ اتفاق سے اسے ایک شہد کا چھتہ نظر آیا۔وہ اس شہد شیریں کو پینے میں اتنا مشغول ہوا کہ نہ ڈر رہا سانپ کا اور نہ شیر کا۔اتنے میں درخت کی جڑ کٹ گئی وہ نیچے گر پڑا۔شیر نے اسے چیر پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور وہ سانپ کی خوارک بن گیا۔ جنگل سے مراد یہ دنیا ،شیر سے مراد یہ موت ہے جو انسان کے پیچھے لگی رہتی ہے،گڑھا قبر ہے ،چوہا دن اور رات ہیں،درخت عمر ہے اور شہد دنیا ئے فانی سے غافل ہو کر دینے والی لذت ہے۔

ایک دانشور کا قول ہے کہ انسان جتنا مرضی طاقتور بن جائے اتنا ناقص منصوبہ ساز ہے کہ اپنے ہر فیصلے میں موت کو کبھی شامل نہیں کرتا موت تو آکر رہے گی۔ہر انسان کا دنیا میں آتے ہی اسکا سفر موت کی جانب شروع ہو جاتا ہے- جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے ترقیٌ کی منازل طے کرتا جاتا ہے لیکن وہ بھول جاتاہے کہ یہ سفر آخرت ہے اور ہر پل موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

انسان بھول جاتا ہے

انسان عمر کی اونچائیاں چڑھتا ہوا بھول جاتا ہے
کہ اصل میں وہ اتر رہا ہے زینہ زینہ دو گز زمین میں

Insan Umr Ki Unchayan Chrhta Hua Bhool Jata Hay
Keh Asl Mein Vo Utr Raha Hay Zeena Zeena Do Gaz Zameen Mein


اپنا تبصرہ بھیجیں