وقت بہت ظالم ہے
تجربہ دے کر معصومیت چھین لیتا ہے
پاکستان میں بے تحاشا مسائل موجود ہیں اور انہی مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ عمر اور نابالغ بچوں سے مزدوری کروا ناہے۔ پاکستان میں بہت بڑے پیمانے پر کم عمر اور نابالغ بچوں سے محنت مزدوری کرائی جاتی ہے۔ بچے کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن حالات سے مجبور ہو کر جب یہ بچے اپنے ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں- بچوں کی زیادہ تر تعداد ہمیں چھوٹی صنعتوں، ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی دکانوں میں اور اسی طرح ان سے جڑے ہوئے اور بہت سے شعبوں میں نظر آتی ہے مثلا اشیاء کی لوڈنگ وغیرہ۔وسائل کی کمی اور غربت کی وجہ سے ماں باپ اپنے آٹھ آٹھ، دس دس سال کے بچوں کو کمانے کیلئے بھیج دیتے ہیں اور کوئی بھی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ معصوم بچے ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی موٹی دکانوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان معصوم بچوں کو مالکان دن بھر کی شدید محنت اور مشقت کے بعد معمولی سی دیہاڑی دے کر ساتھ یہ احسان بھی چڑھاتے ہیں کہ وہ انہیں سکھا رہے ہیں اور سارا سارا دن ان سے شدید گرمی میں نا صرف دکان کا کام لیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتے ہوئے ان معصوم بچوں سے سارا دن فالتو کام جیسے بوتلیں، جوس یا چائے وغیرہ بھی منگواتے ہیں۔ یہ عمل آج کے عہد میں غلامی کی منظر کشی کرتا ہے۔ اسی طرح شہروں میں حکمران طبقے کی دیکھا دیکھی مڈل کلاس طبقہ بھی ویسے مہنگے کھانا بنانے والے یا پھر ہر کام کیلئے علیحدہ علیحدہ ملازم تو نہیں رکھ پاتے مگر ایک دس، بارہ سال کا معصوم بچہ یا بچی گھر میں کام کرنے کیلئے رکھ لیتے ہیں اور ان معصوموں سے سارا دن کام کرواتے ہیں اور ان پر رعب جھاڑ کر اپنے آپ کو حکمران طبقہ محسوس کرتے ہیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تو 8 سال کا بچہ بھی اپنے بچپن میں ہی جوان ہو جاتا ہے اورروزی روٹی کمانے کی بھاگ دوڑ میں شامل ہونااس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ اسے اپنی زندگی کا سنہری دور مزدوری کرتے ہوئے گزارنا پڑتا ہے۔