شکل بدل سکتی ہے فظرت کبھی نہیں بدلتی


وقت کے ساتھ شکل بدل سکتی ہے
مگر فظرت کبھی نہیں بدلتی

شکل بدل سکتی ہے فظرت کبھی نہیں بدلتی

کسی جنگل میں ایک بھیڑیا رہتا تھا۔ ایک دن وہ بھیڑیا ایک شکاری کے جال میں پھنس گیا۔ بہت زور لگایا مگر جال سے نکل نہ پایا، بلکہ مذید اُلجھ گیا۔ اِسی تگ و دو میں جال کی ڈوریاں اُس کے جسم میں گڑ گئیں اور جسم سےخون رسنے لگا۔ اتنے میں قریب سے ایک چوہے کا گزر ہوا۔ بھیڑیا اُسے دیکھتے ہی انتہائی لجاجت سےبولا: بھائی چوہے!میری مدد کرو میں اس جال میں بری طرح پھنس گیا ہوں، تم مہربانی کرو اور اپنے تیز دانتوں سے اس جال کو کاٹ دو تا کہ میں آزاد ہو جاؤں۔

چوہا بولا : نہ بابا نہ! اگرمیں نے تمہیں آزاد ی دلا دی تو تم سب سے پہلے مجھے ہی ہڑپ کر جاؤ گے۔ بھیڑیا بولا: تم ٹھیک کہتے ہو ۔ میری فطرت کچھ ایسی ہی ہے مگر تمہارے اس احسان کے بدلے میں وعدہ کرتا ہوں کہ نہ صرف میں اپنے آپ پر قابو رکھوں بلکہ جب تمہیں کسی اور درندے نے تنگ کیا تو میں تمہاری مدد کر وں گا۔ قصہ مختصر کافی دیر تک منت سماجت کرنے کے بعد بھیڑیے نے چوہے کو راضی کر ہی لیا اور یوں چوہے نے اس جال کو اپنے تیز دانتوں سے کتر ڈالا۔

بھیڑیے نے آزاد ہوتے ہی چوہے کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج سے تم میرے ساتھ رہو گے اور مجال ہے کہ جنگل کا کوئی دوسرا جانور تمھاری طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ چوہا بہت ہی خوش ہو گیا اور ننھا سا سینہ پھلا کر جنگل میں گھومنے لگا۔ جب بھی کوئی لگڑبھگا، جنگلی بلی، گیدڑ، لومڑی، وغیرہ اس کی طرف حملہ کرنے کے لیے بڑھتے وہ فوراً بھیڑیے کو بلا لیتا اور بھیڑیا بھی فوراً ہی لبیک کہتا ہوا چوہے کی مدد کو آن پہنچتا اور حملہ آور کو مار بھگاتا۔ یہ دیکھ کر چوہے کی ہمت اتنی بڑھ گئی کے راہ چلتے ہر چھوٹے بڑے جانور کی بے عزتی کرنے لگا اور یوں جنگل کے تمام جانور چوہے سے نفرت کرنے لگے۔

ایک دن کچھ شکاری دوبارہ جنگل میں آئے اور انہوں نے بھیڑیے پر گولی چلائی۔ گولی بھیڑیے کی ٹانگ پر لگی پر جان بچ گئی۔ لنگڑا بھیڑیا اب شکار کرنے کے قابل نہ رہا۔ معذوری کی حالت میں بھوک کی شدت بڑھتی گئی مگر کوئی بھی جانور شکار نہ کر سکا۔ دوسری طرف بھیڑیے کی پشت پناہی کے زعم میں چوہے نے سرے راہ ایک لومڑی کی بے عزتی کر دی۔ لومڑی غصہ میں آ کر چوہے کو پکڑنے کے لیے لپکی تو چوہا فوراً بھاگ کر بھیڑیے کے پاس آ گیا۔ لومڑی یہ دیکھ کر دور ہی رُک گئی مگر موٹے تازے چوہے کو دیکھ کربھیڑیے کی نیت میں فتور آگیا اور بھوک چمک اُٹھی۔ اُس نے ایک ہی پنجہ مار کر چوہے کو دبوچ لیا ۔

چوہے نے جو بھڑیے کے خطرناک تیور دیکھے تو خوفزدہ ہو کر بولا: بھائی بھیڑیے یہ کیا کر رہے ہو؟ میرے احسان کا یہ بدلہ دے رہے ہو؟ بھیڑیا بولا: کمبخت تو نے بھی تو اُس دن کے بعد سے جنگل کے تمام جانوروں کو بے عزت کر کے اپنی اوقات سے زیادہ مزے کیے ہیں اور کسی خوف کے نہ ہونے کے سبب کھا کھا کر خوب موٹا ہو گیا ہے۔ چل اب میرا خالی شکم سیر کر۔ بھیڑیے نے یہ کہا اور ایک ہی بار میں سالم چوہے کو ہڑپ کر گیا۔

سبق:

– عادت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر فطرت پر قابو پانا ممکن نہیں۔ سانپ کو لاکھ دودھ پلاؤ مگر وہ کاٹےگا ضرور

Waqt Kay Sath Shakl Badl Skti Hay
Magr Fitrt Kbhi Nahi Badlti


اپنا تبصرہ بھیجیں