موت کی آخری ہچکی


موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے ُسن
ساری ہستی کا خلاصہ ِاسی آواز میں ہے

اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے پوچھا ۔تجھ کو کسی بندے کی روح قبض کرتے وقت کبھی رحم بھی آیا یا نہیں ؟ملک الموت نے عرض کیا۔ اللہ رب الغزت ! مجھکو دو ذی روحوں کی جان نکالنے میں کمال رقت ہوئی تھی ، اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ہرگز ان کی جان نہ نکالتا۔ ارشادہوا: بتاؤ‘ وہ دو لوگ کون تھے؟

عرض کیا :ایک تو وہ بچہ تھا جو نیا پیدا ہوا تھا اور اپنی ماں کے ساتھ جہاز کے ٹوٹے ہوئے تختے پر بے سروسامانی کی حالت میں بحر بیکراں میں تیراتا جا رہا تھا۔ اس وقت اس بچے کا واحد سہارا تمام کائنات میں اس کی ماں تھی تو مجھے حکم ہوا کہ اسکی ماں کی روح قبض کرلے۔ اس وقت مجھے اس بچے پر بے حد بے حد رحم آیاتھا کیونکہ اس بچے کا اس کا ماں کے سوا کوئی دوسرا خبر گیر نہ تھا اور بھوکا پیاسا بچہ اپنی ماں کے دودھ کے لئے ترس رہاتھا۔

اور باری تعالیٰ ! دوسرا ایک بادشاہ تھا جس نے ایک شہر کمال آرزو سے ایسا بنوایا تھاکہ ویسا شہر دنیا میں کہیں نہیں تھا، جب وہ شہر تیار ہو گیا اور بادشاہ اپنے شہر کو دیکھنے پہنچا تو جس وقت ایک قدم اس کا شہر کے دروازے میں تھا تو مجھے حکم ہوا اور اس کی جان قبض کر لے اس وقت بھی مجھے بہت رونا آیا تھا کہ وہ بادشاہ کیاکچھ حسرتیں اپنے دل میں لے گیا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:عزرائیل ! تمہیں ایک ہی شخص پر دوبار رحم آیا ہے! کیونکہ یہ بادشاہ وہی بچہ شداد تھا جس کو ہم نے بغیر ماں باپ کے بنا کسی سہارے کے سمندر کی تیز وتندلہروں اور طوفانوں میں بھی محفوظ رکھا اور اس کو حشمت وثروت کی بلندیوں پر پہنچایا اور جب یہ اس مرتبے کو پہنچا تو ہماری تابعداری سے منہ موڑا اور تکبر کرنے لگا اور آخرکار اپنی سزا کو پہنچا۔

(بہشتی زیور)

Mout Ki Akhari Hichki ko Zara Ghoor Say Sun
Saari Hasti Ka Khulasa Isi Awaaz Mein Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں