کیا مطلبی ہے آدم ، خود دیکھ لو ذرا
لیتا بدل دعائیں جوں جوں قبول ہوں
للہ واحد ہے ، جس سے کچھ مانگو تو خوش ہوتا ہے نا مانگو تو ناراض ہوتا ہے
انسان کا الله سے غرض رکھنا، اس سے دعائیں مانگنا، اپنی ضروریات کے لیے اس کے آگے دست سوال دراز کرنا، یا مصیبت کے وقت اپنے کسی نیک عمل کا واسطه دے کر اس سے کچھ طلب کرنا، یه کوئی ناپسندیده اعمال نهیں هیں۔ پیارے نبی کی حدیث هے که اگر جوتے کے تسمه جیسی معمولی شے کی بھی ضرورت هو تو الله هی سے مانگو۔ الله سے مانگتے رهنا تو اس کے سامنے عاجزی اور بے کسی کا اظهار هے، جو الله کو انتهائی محبوب هے۔ اور نه مانگنا تو تکبر کی نشانی هے۔ اس سے نه مانگا جائے تو وه ناراض هو جاتاهے. هاں اس پر بات هو سکتی هے که الله سے مانگنے میں کون سی چیز کی ترجیح زیاده هو اور کون سی کم۔ لیکن اپنی اغراض کے لیے اس سے، اور صرف اسی سے مانگتے رهنا، بلکه مسلسل مانگتے رهنا انتهائی پسندیده عمل هے۔ ضرورت اور مشکل وقت میں مانگنے کی تاکید تو ویسے بھی بہت هے، تا ہم آسانی اور عافیت کے دور میں مانگنے کی تو الله کے ہاں اور بھی قدروقیمت هے۔ نبی کریم کے اسوه حسنه سے هیں . لیکن انسان کا یہ حرص و ہوس کبھی ختم نہیں ہو سکتا، ایک جیز مل جانے پر شکر ادا نہیں کرتا بلکہ سوچتا ہے کہ کاش! اس کی جگہ کچھ اور مانگ لیا ہوتا، جب کچھ اور اچھا مل جائے تب پھر دل بدل لیتا ہے کہ اس کی جگہ مجھے کوئی اور چیز مل جائے، جب ہماری کوئی دعا قبول ہو جاتی ہے تو ہم لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کاش قبولیت کی اس گھڑی میں ہم نے کچھ اور مانگ لیا ہوتا- جب ہم نے کچھ دیر پہلے وہ چیز مانگی تھی اور وہ الله نے ہمیں فوراً دے بھی دی تو ہم بجائے اس کا شکر ادا کرنے کے ناشکرا پن کیوں دکھانے لگتے ہیں ؟؟؟؟ آخر ہم حاصل ہو جانے والی شے پر قانع اور مطمئن کیوں نہیں ہوتے ؟؟؟؟ یہ اللہ کو ساخت نا پسند ہے کہ اس کے دیے کا شکر کیئے بغیر یہ سوچنا کہ کاش! کچھ اور اچھا مانگ لیا ہوتا- ہر حال میں الله پاک کا شکر ادا کیا کرو ، الله شکر ادا کرنے والے بندے کو بہت پسندکرتا ہے- اور اپنی حاجت کے لئے الله پاک کی حمد و ثنا کے بعد دعا یوں مانگا کرو کہ یا رب کریم اگر یہ چیز میرے حق میں بہتر ہے تو میری دعا کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور اگر یہ میرے حق میں بہتر نہیں ہے تو مجھے اس سے بہتر نعم البدل عطا فرما…!