دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ
بندگی یا عبادت سے مراد آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے یعنی بندہ اپنے رب کے سامنے جس عاجزی و تعظیم کی آخری حد کو چھو جاتا ہے اسکا نام بندگی ہے جو کہ تمام جن و انس کا مقصد حیات بھی ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
”اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں “(الذر یٰت 51 ،آیت 56 )
”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور پر پھیلا تے ہوئے پرندے بھی (اسکی تسبیح کرتے ہیں) اور ہر ایک (اللہ کے حضور ) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں“ (نور 24 ،آیت41 )
ہم لوگ عبادات کا اہتمام تو بہت ذوق وشوق سے کرتے ہیں دینداری کے بلند بانگ دعوے بھی کرتے ہیں نماز پنجگانہ کی پابندی بھی کی جاتی ہے لیکن ان کے کردار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں، جھوٹ بھی بڑی فراخدلی کے ساتھ بولا جاتا ہے ، وعدے کی پابندی بھی نہیں کی جاتی، اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ انسانی ضرورتیں انسان سے یہ سب کچھ کرواتی ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ ہماری نمازیں خشوع و خضوع سے خالی ہیں اعمال میں اخلاص نہیں بلکہ ریا کاری اور دکھاوا ہے اسی لیے ہماری عبادتیں تاثیر سے خالی ہیں۔ کسی کا خیال ہے کہ دنیا کی حد سے بڑھی ہوئی محبت نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔کسی کا کہنا ہے کہ ہم مال کی محبت میں گرفتار ہیں لالچ اور ہوس زر نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ہر شخص اپنی فکر کے مطابق اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ عبادات کے بغیر بھی بات نہیں بنتی لیکن عبادات کے ساتھ ساتھ کردارکا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔حضرت عمر فاروق کا قول مبارک ہے کہ انسان کو عبادات سے نہیں بلکہ اس کے معاملات سے پہچانو۔
ہم نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں،زکاة دیتے ہیں ، حج کرتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ذکرکا اہتمام کرتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں،لیکن ان تمام عبادات کا ہمارى اكثريت پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہو پاتا۔
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھر کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ
یہ کس شاعر کا شعر ہے؟
اقبال