کوئی تجھ سے کچھ کوئی کچھ مانگتا ہے
میں تجھ سے ہوں یا رب طلبگار تیرا
الٰہی یہ عالم ہے گلزار تیرا
عجب نقش قدرت نمودار تیرا
جہاں لطفِ گل ہے وہیں خارِ غم ہے
ہےگل خار میں گل میں ہے خار تیرا
عجب رنگِ بے رنگ ہر رنگ میں ہے
یہ ہے رنگِ صُنعت کا اظہار تیرا
خوشی غم میں رکھی ہے اور غم خوشی میں
عجب تیری قدرت عجب کار تیرا
یہ نقشہ دو عالم کا جو جلوہ گر ہے
ہے پردے میں روشن سب انوار تیرا
یہ کوتاہی اپنی نظر کی ہے یارب
ترے نور کو سمجھیں اغیار تیرا
بہررنگ ہر شے میں ہر جاپہ دیکھو
چمکتا ہے جلوہ قمروار تیرا
نہیں وہ جگہ اور نہیں وہ مکاں ہے
کہ جس جا نہیں ذکر اذکار تیرا
تو ظاہر ہے اور لاکھ پردے میں تو ہے
تو باطن ہے اور سخت اظہار تیرا
تو اول، نہیں ابتدا تیرا یارب
تو آخر، نہیں انتہا کار تیرا
تو اول، تو آخر، تو ظاہر، تو باطن
تو ہی تو ہے یا کہ ہے آثار تیرا
نظر کو اٹھا کر جدھر دیکھتا ہوں
تجھے دیکھتا ہوں نہ اغیار تیرا
نہیں دیکھتا کچھ ولے دیکھتا ہوں
ہر اک جا پہ نقشہ طرحدار تیرا
الٰہی میں ہوں بس خطاوار تیرا
مجھے بخش ہے نام غفار تیرا
عفو کس سے چاہے گنہگار تیرا
کہو کس سے چھوٹے گرفتار تیرا
الٰہی بتا چھوڑ سرکار تیری
کہاں جاوے یہ بندہ ناچار تیرا
نہیں کوئی میرا سوا تیرے یا رب
تو مالک ہے میں ہوں عبد بیکار تیرا
کہاں میرے عصیاں کہاں تیری رحمت
کہاں خس کہاں بحرِ ذخار تیرا
فنا ہو گیا جو تیری دوستی میں
تو ہے یار اس کا وہ ہے یار تیرا
الٰہی عطا ذراءِ درد دل ہو
کہ بے درد مرتا ہے بیمار تیرا