شکر کرنا سیکھو
اتنا ملے گا کہ تھک جاؤ گے
اگر دنیا کی آزمائش کے فلسفے کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ صبر اور شکر کا امتحان ہے۔ انسان پر یا تو خدا کی نعمتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا پھر وہ کسی مصیبت میں گرفتا ر ہوتا ہے۔ پہلی صور ت میں اسے اللہ کا شکر کرنے کی ہدایت ہے تو دوسری صورت میں صبر و استقامت کی تلقین۔ چنانچہ جو لوگ ایمان کے ساتھ شکر اور صبر کے تقاضے پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے وہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ خالق کل اور مالک کل ذات ہیں، اللہ تعالیٰ کی معرفت اللہ کےاسما،صفات، اور افعال سے حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام “الوہاب” اور صفات میں سے ایک صفت “الکرم” ہے اسی صفت کے ساتھ اللَّہ اپنے بندوں پر نعمتوں کی برسات کرتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بےشمار نعمتیں کیئں ہیں- زمین و آسمان ،دریا سمندر، خشکی پانی، یہاں تک کہ پوری کائنات انسان کے واسطے سجائی گئی ہیں مگر انسان بڑا جلد باز اور ناشکرا ہے ذرا سی تکلیف، مصیبت یا بیماری آنے پر ناشکری کرنے لگتاہے، اور کہتا ہےکہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ بہت بڑی ناشکری ہے کیا یہ اللہ کا کرم نہیں کہ اس نے ہمیں صحت وتندرستی، مال و متاع، جائیدادیں و زمینیں، اہل و عیال، عقل سلیم و علم عظیم، حسن و وجاہت، جسم کے سارے اجزاء سلامت ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کا اعلیٰ معیار دیا ہے- اگر اللہ ہماری آزمائش کے لیے کوئی نعمت نہ دے یا کسی نعمت میں کمی کردے یا کوئی نعمت دیکر واپس لےلے . تو اس پر ناشکری کیوں؟
میں ہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے- ہروقت اللہ کے ذکر سےرطب السان ہونا چاہیے -کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ہم پر بےشمار نعمتیں ہیں جن کو ہم شمار بھی نہیں کرسکتے- اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں- ترجمہ:
“اور اگر اللہ کے احسانات گننے لگو تو شمار نہیں کرسکو گے” (ابراہیم:34 )
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو۔(البقرہ ۱۷۲:۲)
۔ اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں )(الفرقان ۶۲:۲۵)
۔ اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں سے تم کو عنایت کیا۔ اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو۔ (مگر لوگ نعمتوں کا شکر نہیں کرتے) کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔(ابراہیم ۳۴:۱۴)
ہم مسلمانوں کواس بات پرفخر اورشرف حاصل ہے کہ ہم اس اللہ واحدوصمد کے بندے وغلام ہیں جس سے نہ کوئی پیدا ہوا اورنہ وہ کسی سے پیدا ہوا ، اورنہ کوئی اس کا ہمسر ہے ، اوروہ ہمارا رب وپروردگار ہے ، اس کے علاوہ ہمارا کوئی رب نہیں ، اسی لیے ہم اپنے رب کریم کے احکام واوامر کوبجالانے میں کسی بھی قسم کی حیل وحجت سے کام نہیں لیتے بلکہ جوکچھ بھی ہمارا رب ہمیں حکم دیتا ہے ہم اسے انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں علم ہے کہ ہمارا رب حکیم ہے جس کی حکمت سے زيادہ کسی کی حکمت نہیں ہوسکتی ، اورہمیں علم ہے کہ وہ رحیم ہے جس کے سوا کوئی رحم کرنے والا نہیں ہے وہ اپنی حمدوتعریف کے ساتھ پاک ہے ، اسی لیے ہم اس سے ایسی محبت کرتے ہیں جوہم پراس کے ہر اس حکم کی اطاعت لازم کرتی ہے جس کا وہ ہمیں حکم دیتا ہے اگرچہ اس حکم میں ہم پرمشقت ہی کيوں نہ ہو ، ہم اس کے دیے گئے حکم کی بجاآوری میں فخر اورسعادت وراحت محسوس کرتے ہیں ۔