دنیا میں تمہارے لیئے بدترین سزا یہ ہے
کہ اللہ تمہاری زبانوں سے اپنا ذکر روک لے
اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ
ترجمہ: خوب سمجھ لو کہ اﷲ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔
انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی ذاتِ پاک کا خلقتاً و فطرتاً عاشق پیدا فرمایا ہے یعنی ہر انسان مرتبہ فطرت انسانیت میں عاشقِ حق ہے۔ حق تعالیٰ نے اس دعویٰ پر ایک دلیلِ مثبت قرآنِ پاک میں ارشاد فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ اے ہمارے بندو! خوب کان کھول کر سن لو کہ تمہارے سینوں میں جو قلوب رکھے گئے ہیں ان کو سکون اور چین صرف ہماری یاد ہی سے مل سکتا ہے۔ ہم تمہارے اور تمہارے قلوب کے خالق ہیں۔ ہم نے تمہارے سینوں میں ایک ایسا مضغۂ لحمیہ یعنی گوشت کا ٹکڑا رکھ دیا ہے جس کی غذا صرف میری یاد ہے۔
رہی یہ بات کہ پھر اہلِ سلطنت اور اہل دولت خدا تعالیٰ کی یاد سے غافل ہونے کے باوجود خوش و خرم کیوں نظر آتے ہیں تو درحقیقت ان کی یہ خوشی ہماری ظاہری آنکھوں سے معلوم ہوتی ہے، ان کے دلوں کو اگر ٹٹولا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ہرگز مطمئن اور چین سے نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ فسق و فجور کی گندگی سے ان کے دل بیمار ہوتے ہیں قلبِ سلیم کی غذا صرف ذکرِ حق ہے، بیمار قلب کا تو احساس بھی غلط ہوتا ہے۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ 28:13
(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (انکو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔
“دنیا میں تمہارے لیئے بدترین سزا یہ ہے کہ اللہ تمہاری زبانوں سے اپنا ذکر روک لے،، اللہ تبارک وتعالیٰ کو ہمیشہ یاد کرنا چاہیے اوراگر ایسا نہ ہو تو اکثر اوقات بہر حال اللہ کی یاد سے معمور ہونے چاہیں۔کیونکہ انسان کی فلاح اسی ذکرالٰہی سے وابستہ ہے جیساکہ ارشادربانی ہے”اوراللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمام دونوں جہانوں میں بامراد ہوجاﺅ (الجمعہ)“۔
اللہ رب العزت نے اپنے ان بندوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے جو قیام و قعود اور(جاگتے ) سوتے ہر حال میں اس کا ذکر کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے ہر حال میں اپنی یاد کا حکم فرمایا اورفرما یا ہے کہ کسی وقت بھی اس فریضہ سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیاگیا کہ تمام اعمال میں کون سا عمل سب سے افضل ہے تو آپ نے ارشادفرمایا کہ:
مرتے وقت زبان کا ذکرِ الٰہی سے تر ہونا،
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ:
جو شخص ذکر کی کثرت ومشغولیت کی وجہ سے دعاءنہیں مانگ سکتا اس کو جو عطیہ ملتا ہے وہ مانگنے والوں سے بھی بہتر ہوتا ہے۔(کیمیائے سعادت)