سکون چاہتے ہو توانسانوں پر خرچ کرو


سکون چاہیے ہو تو مکانوں پر نہیں
انسانوں پر خرچ کرو

سکون چاہتے ہو توانسانوں پر خرچ کرو

آج کے جدید دور میں نت نئی ایجادات ہر روز ہو رہی ہیں جو انسان کو بہت سی سہولتیں پہنچارہی ہیں ان سہولتوں کے میسر آنے سے بظاہر انسان کو زندگی کے امور میں بہت سی آسانیاں ملنی شروع ہو گئی ہیں۔ انسان اپنے لائف سٹائل کو بہت انجوائے بھی کر رہا ہے مگر ان سب سہولتوں نے انسان کے اندر نفسا نفسی اور بے سکونی بھی پیدا کر دی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ان سہولتوں کو انجوائے کرتے ہوئے انسان کا دل و دماغ پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہو گیا ہے۔ ہر کوئی آگے بڑھنے کے لیے دوڑ رہا ہے جو وقت اللہ تعالیٰ نے آرام کرنے کے لیے بنایا ہے اس میں بھی کام۔

انسان بہتر زندگی گزارنے کے لیے بس ہر وقت اپنے آپ کو مصروف رکھے ہوئے ہے۔ سکون قلب کیسے ملتا ہے اس کے لیے قران پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو سکون و اطمینان ملتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص نیک کام کرے گا خواہ وہ عورت ہو یا مرد بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو تو ہم اس کو پرلطف زندگی دیں گے اور ان کے اچھے کاموں کے عوض ان کا اجر بھی دیں گے۔

لوگ عموما اس وقت مایوسی کا شکار ہوتے ہیں جب ان کی سوچ کے انداز منفی ہوں یعنی صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہیں یا پھر ایمان کی کمی بھی ہوتی ہے اور صبر سے محروم ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو ہم اس دنیا میں جھیل رہے ہیں۔ دنیا کے رنج و الم سے نجات کا واحد علاج یہی ہے کہ انسان اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اس کی رضا پر راضی رہے، ترقی کی کوشش ضرور کرنی چاہیے مگر اس کے لیے اپنے آج کے آرام و سکون کو تباہ نہیں کر دینا چاہیے۔ ہر وقت اپنے رب پر پورا یقین کرنے سے ہی انسان دنیا میں بھی ترقی کر سکتا ہے اور اس کی آخرت بھی سنور سکتی ہے۔ دنیاوی زندگی گزارنے کے لیے جو طریقے ہمارے نبی پاک ﷺ نے ہمیں بتائے ہیں ا ن پر چلنے کی کوشش سے ہی ہماری زندگیوں میں آرا م و سکون آ سکتا ہے۔

آج انسانی زندگی میں سکون لانے کے لیے ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خصوصی خیال کرنا ہے۔ اللہ کے ذکر سے بیشک دلوں کو اطمینان و سکون ملتا ہے تو اللہ کی مخلوق سے بہتر سلوک سے جہاں اللہ پاک خوش ہوتا ہے وہیں ہمارے آس پاس رہنے والے لوگ بھی ہم سے خوش ہو تے ہیں۔ یوں اگر ہم سب ایک دوسرے کا خیال کرنے لگیں تو ایک صحت مند اور بہتر معاشرہ وجود میں آ جائے گا جہاں سب کو بہتر سہولتیں اور ترقی کے بہتر مواقع ملیں گے۔

دوسرے لوگوں کے بہتر لائف سٹائل کو دیکھ کر پریشان ہونا چھوڑ دینے سے انسان کے اندر فضول خواہشات ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ انسان اپنے نصیب پر راضی رہنے لگتا ہے۔ اس سے بھی یقینی طور پر دلوں کو سکون ملتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دنیا وی معاملات میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو اور دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والوں پر نگاہ رکھو۔اگر ہم کسی کو خوشی نہیں دے سکتے تو ہمیں کسی کی دل آزاری کا سبب بھی نہیں بننا چاہیے۔ بہتر سلوک کے زیادہ حقدار ہمارے والدین اور قریبی رشتے دار بھی ہیں اور ان کے علاوہ جو لوگ ہمارے آس پاس رہتے ہوں ان سے بھی اچھا برتائو کرنے سے ہمارا معاشرہ بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا۔

Skoon Chahtay Ho To Mkanon Per Nahi
Insano Per Kharch Kro


اپنا تبصرہ بھیجیں