رمضان کریم


رمضان کی ساری برکت و عظمت قرآن ہی کی وجہ سے ہے۔ یہ جس مہینے میں اترا اسے سب مہینوں سے افضل بنا دیا، جس رات اترا اسے ہزار مہینوں سے بہتر بنا دیا اور جس نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم پر اتارا گیا اسے امام الاانبیا بنا دیا۔ نزول قرآن کے ساتھ اس ماہ مبارک کی خصوصیات، ملت اسلامیہ کے دو اہم تاریخ ساز واقعات بھی ہیں۔ ایک بدر کے میدان میں مٹھی بھر مسلمانوں کی قلت سامان کے باوجود اپنے سے کہیں بڑے دشمن کے مقابلے میں شاندار فتح یعنی’’یوم فرقان‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، پس اس کا کوئی دروازہ کھلانہیں رہتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پس اس کاکوئی دروازہ بند نہیں رہتا، اور ایک منادی کرنے والا (فرشتہ) اعلان کرتا ہے کہ : اے خیر کے تلاش کرنے والے! آگے آ، اور اے شر کے تلاش کرنے والے! رُک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کردیاجاتا ہے، اور یہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔‘‘ (احمد، ترمذی)

رمضان کریم

رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور نیکی کے راستوں پر چلنے کی توفیق عام ہوجاتی ہے۔ جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور روزہ بدی کے راستوں کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور بدی پھیلانے کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں (بخاری، مسلم ،ابو ہریرہ)۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ روزہ شیطانی حملوں سے روکتا ہے۔ شیطانی حملوں کا دائرہ ہماری زندگی میں ہمیں اللہ کا رنگ اختیار کرنے سے روکنے تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر چھوٹی چھوٹی چیزوں اور باتوں میں بھی ہم اللہ کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں تو ہم شیطان کے اس ہتھکنڈے سے محفوظ ہوجائیں گے۔ اسی لیے ابلیس انسانی زندگی میں، اللہ کے ایسے رنگ چڑھنے کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد تو یہاں تک ہے کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی درکار ہو تو اللہ سے مانگو۔ حضرت رسول کریم ﷺ اللہ کے رنگ میں کامل رنگے ہوئے تھے۔



سنن نسائی کی حدیث ﷺ کے مطابق ایک دن کا روزہ جہنم سے ستّر سال کی دوری کا باعث بن جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے مطابق اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے تو اس کا بدلہ بھی پھر میں ہی دوں گا۔

صحابی رسول ﷺ حضرت سہل سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جسے ”باب الر یان “ کہا جاتا ہے اس دروازے سے قیامت کے روز صرف روزے داروں کا داخلہ ہوگا ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہوسکے گا اس دن پکارا جائے گا کہا ہیں وہ بندے جو اللہ کے لیے روزے رکھا کرتے تھے (اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے) وہ اس دن پکار پر چل پڑیں گے ان کے سوا اس دروازے سے کسی اور کا داخلہ نہیں ہوسکے گا۔

جب وہ روزے دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہوسکے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھتا رہتا ہے اسے ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو تک ملتا ہے اور اس سے زائد اللہ جتنا چاہے، اتنا ملتا ہے مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ تو میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

روزے دار اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میری ہی وجہ سے چھوڑتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزے دار کے لیے دوخوشیاں ہیں ایک خوشی تو اسے افطار کے وقت ملتی ہے اور ایک خوشی اپنے رب کی ملاقات کے وقت ملے گی روزے دار کے منہ کی بواللہ کے ہاں خشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اس ماہ مبارک میں ایک ایسی عظیم وبارکت رات ہے جو صرف ہزار دنوں اور راتوں ہی سے نہیں بلکہ ہزرا مہینوں سے افضل ہے۔

ہزار مہینوں میں تقریباََ تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں، گویا امت محمد ﷺ کے خوش بخت افراد اور ورضا کے طالب بندے اس ایک رات میں شب داری اور عبادت ومنا جات کے ذریعے قرب الٰہی کی اتنی مسافتیں طے کر سکتے ہیں جو دوسری ہزار راتوں میں بھی طے نہیں ہوسکتیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ” جس شخص نے روزہ رکھنے کے باوجود جھوٹ بات کہنا اور اس عمل کرنانہ چھوڑا تو اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ بھوکا رہتا ہے یا پیاسا۔

Ramzaan Kareem


رمضان کریم” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں