عقل کی لاکھوں دلیلیں الله تعالیٰ سے ایک گناہ بھی معاف نہیں کروا سکتیں
مگر دعا میں ندامت کا ایک آنسو ممکن ہے زندگی بھر کے گناہ معاف کرا دے
اللہ تعالی ٰ نے جب انسان کی تخلیق کی تو اس میں خیر اور شر دونو ں شامل کر دیئے یہی وجہ ہے کہ انسان جب اپنے نفس میں مو جو د شر پر قابو پاکر خیر کے کا م کر تا ہے تو فر شتوں سے افضل ہو کرمسجو د ملا ئک بن جا تا ہے اور اگر خیر کو چھو ڑ کر شر پر عمل پیرا ہو تا ہے تو اسفل سافلین ٹھہر تا ہے انسان کے اندر موجود خیر اور شر کی جنگ مرنے تک جاری رہتی ہے اور یہی دونو ں عوامل انسان کو جنتی یا جہنمی بنا ڈالتے ہیں انسان کو اللہ نے خا ک سے پیدا کیا ہے اور اس کی فطر ت میں نیکی بد ی ڈال دی ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں آکر انسان خطا کرنے سے باز رہے ما سوائے ان لو گوں کے جنہیں اللہ نے شر سے محفو ظ فرما دیا ہو جیسے انبیا ءعلیہ السلا م با قی ساری دنیا کے لو گ چاہئے مسلما ن ہو ں یا کسی اور مذہب کے پیروکار گنا ہ کرتے ہیں کیونکہ کہا یہی جا تاہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے ایک واقعہ ہے کہ ایک دن ہمارے نبی اکرمﷺ نے صحابہ ؓ سے دریا فت کیا کہ ” کیا یہ ممکن ہے کہ کو ئی شخص پانی پر چلے اور اس کے پیر گیلے نہ ہوں “صحا بہ ؓ نے جواب دیا ایسا نا ممکن ہے جس پر آپ ﷺ نے فرما یا ”پس جو شخص دنیا میں آئے گا خطا بھی ضرور کر ے گا “
مولانا طارق جمیل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت حد تک بااختیار بنایا ہے۔ اس کو آزادی دی ہے جبکہ بقایا مخلوقات پابند ہیں۔ انسان میں اچھائی اور برائی کی دونوں صلاحیتیں ہیں، وہ جدھر چاہے گا اسی طرف راستے کھلتے جائیں گے۔ برائی کا راستہ بظاہر خوب صورت لیکن باطن انتہائی خوفناک ہے جبکہ اچھائی کا راستہ بظاہر مشکل لیکن درحقیقت نہایت خوب صورت ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ صفر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی انسان مکمل نہیں۔ وہ گناہ کرتا ہے، لیکن اگر وہ سو گناہ بھی کرے اور سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ اسے فوراً بخش دیتا ہے لیکن اگر وہ اپنے گناہ کو صحیح سمجھے، اس پر فخر کرے یا ڈٹ جائے تو پھر اس کی نجات ناممکن ہے۔ ندامت کا ایک آنسو زندگی بھر کے گناہوں کو معاف کروا دیتا ہے۔ بشرطیکہ یہ آنسو اس کا دم نکلنے سے پہلے نکلے۔ اللہ بار بار کی غلطیوں پر بھی بخشتا ہے جبکہ انسان معمولی سی غلطی پر آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔
افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون․ ( القلم:35-36)
کیا ہم اپنے فرماں بردار بندوں کو مجرموں نافرمانوں کی طرح کردیں گے اور دونوں گروہوں کے ساتھ یکساں معاملہ کریں گے؟
ہمارے نبی اکر م حضر ت محمد ﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ”ندامت ہی تو بہ ہے “
جب آدمی برائی کرنے کے بعد نادم ہوکر اللہ کے حضور توبہ کر تا ہے آنسو بہا تا ہے تو توبہ کر کے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر تا ہے گو یا اسے یہ کا مل یقین ہو تا ہے کہ میرا رب تو بہ ضرور قبول فرما تا ہے اور یہی کا مل یقین رب سے اپنے بندے کا تعلق پکا کر دیتا ہے حد یث پاک ہے اللہ کو دو قطرے بہت پسند ہیں ایک اس خو ن کا قطرہ جو اللہ کی راہ میں زمین پر بہایا جا ئے اور دوسرا اس آنسو کا قطرہ جو بندہ اپنے رب کے خو ف سے آنکھ سے بہا ئے اسی لئے اقبا ل نے فرما یا ہے
”موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے قطر ے جو تھے میرے عرق انفعال “