سیاستدان اور لیڈر میں فرق


سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے
جبکہ لیڈر اگلی نسل کا

نیلسن منڈیلا

سیاستدان اور لیڈر میں فرق

پاکستان میں نام نہاد لیڈرکثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ شاید واحد شعبہ ہے جس میں پاکستان خود کفیل ہے۔

اس کے لیے ہمیں بیرونی ممالک کی امداد کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ پھر بھی کبھی سہارے کی نوبت آ جائے تو ہمارے نام نہاد خیرخواہ ہمیں کسی نہ کسی عزیز سے نواز دیتے ہیں۔ یعنی ہماری ضروریات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے یا اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خیر خواہ اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔

یہ وافر مقدار میں پائی جانے والی لیڈر کی قسم دراصل لیڈر نہیں ہوتے انہیں عام زبان میں سیاستدان کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر صرف اپنی دانست میں ہوتے ہیں اور خود کو ان داتا تصور کر لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ عوام کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں اور ان کی ایک آواز پہ کروڑوں لوگ لبیک کہنے کو تیار ہوتے ہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو سیاستدان تو بہت سے میسر آئے لیکن لیڈر یا رہنما جتنے ملے وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جو سیاستدانوں کی فوج ہے اسے دیکھ کے بے ساختہ ٹڈی دل کی اصطلاح ذہن کا طواف کرنے لگتی ہے اور شاید ملک میں سیاستدانوں کی تعداد اس اصطلاح سے بھی زیادہ ہو گی ۔ کیوں کہ یہاں ہر وہ شخص سیاستدان ہے جس کے پاس چند لاکھ روپے اور چند بے ہنگم حلیے کے ساتھی موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمیں لیڈر بہت کم میسر آئے۔ جس کی وجہ سے ہی ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ہم اقوام عالم میں تباہی کے دہانے پر کھڑی ریاست شمار کیے جاتے ہیں۔

سیاستدان اور لیڈر میں یہ فرق ہوتا ہے ایک سیاستدان لعن طعن سن کر بھی اپنے منہ پہ منافق مسکراہٹ سجائے پھرتا ہے اسے صرف اپنے عہدے کی پرواہ ہوتی ہے اور لیڈر اپنے ملک کو بہت کچھ دے کر بھی کرسی چھوڑنے کو تیار ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی رہنمائی کرتا ہے انکی اخلاقی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہیں باقی رکھتا ہمیشہ اپنے ملک وقوم کا فائدہ سوچتا ہے اور لوگ اسکے چلے جانے کے بعد بھی اسے اچھے اور نیک الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنے ممالک نے ترقی کی منازل طے کیں ان میں سے کم و بیش تمام ہی ممالک نے جمہوریت کو اپنایا۔ لیکن اس سیاسی جمہوریت سے وہ آمرانہ لیڈر شپ پھر بھی بہتر ہے جو کم از کم ملک کو مستحکم کرنے کا سبب بنی ہو۔ نیلسن منڈیلا کا کہنا ہے


سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے
جبکہ لیڈر اگلی نسل کا

اور لیڈر یا رہنما تو کہا ہی اسے جا سکتا ہے جو چند دن کے مفاد کے بجائے آنے والی نسلوں کے دلوں میں زندہ رہنے کی جہدو جہد کرے۔ اس جہدو جہد میں ضروری نہیں کہ عارضی ناکامی اسے ناکام رہنما بنا دے بلکہ اس کی عارضی ناکامی شاید مستقبل کی نسلوں کو اپنا راستہ خود بنانے کا فن سکھا دے ۔ اور اگر مستقبل کی نسلیں اس کی جہدو جہد سے یہ فن سیکھ گئیں تو اس رہنما کو اس کی جہدو جہد کا صلہ مل جائے گا۔

Syastdaan Aglay Election Ka Sochta Hay
Jab Keh Leader Agli Nasal Ka


اپنا تبصرہ بھیجیں